سول جج کی اہلیہ کے خلاف ایف آئی آر میں ’بچوں پر ظلم‘ کی دفعہ شامل کردی گئی
اسلام آباد پولیس نے سول جج کی اہلیہ کے خلاف نوعمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں نئی دفعہ کا اضافہ کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس افسران نے تصدیق کی کہ ایف آئی آر میں دفعہ 328-اے (بچے پر ظلم) کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر کسی بچے/ بچی پر حملہ کرتا ہے، بدسلوکی کرتا ہے، لاوارث چھوڑ دیتا ہے یا کسی ایسی کوتاہی کا ارتکاب کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بچے کو جسمانی یا نفسیاتی طور پر چوٹ پہنچنے سے اسے نقصان ہو یا وہ زخمی ہو تو ایسے شخص کو کم از کم ایک سال سے 3 سال تک قید یا 25 ہزار روپے سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
افسران نے بتایا کہ سول جج کے گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی 13 سالہ لڑکی پر تشدد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ شامل کی گئی۔
افسران اور قانونی ماہرین نے کہا کہ مقدمے میں قتل کی کوشش، ہڈی ٹوٹنے، گہرے زخم، دانت ٹوٹنے، کم عمر کو ملازمہ رکھنے اور حقائق چھپانے کی دفعات بھی شامل کی جانی چاہئیں۔
میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) یہ ظاہر کرتا ہے کہ بچی کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی گئی تھی، علاوہ ازیں شکایت اور ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بچی کے گلے پر گلا گھونٹنے کے نشانات پائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچی لاہور کے ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے، میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) کی بنیاد پر ایف آئی آر میں دفعہ 324 بھی شامل کی جانی چاہیے۔
شکایت کے متن اور ایم ایل سی کے مطابق سیکشن 337-اے اور 337-ایف کو بھی ایف آئی آر میں بالترتیب جسم کے اوپری اور نچلے حصوں میں زخموں سے متعلق شامل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کیس میں سیکشن 337 (3) (3) یا 337-ای (وی) اور 337-یو کے تحت بھی وارنٹ جاری کیا جاسکتا ہے کیونکہ بچی کے 2 دانت ٹوٹنے سے ہڈیوں میں فریکچر ہوا تھا، مزید برآں جج اور ان کی اہلیہ کو ایک کم عمر بچی کو بطور ملازم رکھنے پر لیبر ایکٹ کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔
افسران اور قانونی ماہرین نے کہا کہ جس شخص نے کم عمر لڑکی کو جج کے گھر بطور ملازمہ رکھوانے کا تھا، اس کے خلاف لیبر لا اور پاکستان پینل کوڈ کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔
ایک اور افسر نے کہا کہ لڑکی کی حالت تشویشناک ہے اور وہ آئی سی یو میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی رہی ہے، ایسے حالات میں کیسے ڈاکٹر اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کی ٹیم کو اس کا بیان لینے کی اجازت دے سکتے ہیں اور وہ کیسے بیان دے سکتی ہے، تاہم انہوں نے بچی کے والد منگا خان کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔
پولیس ٹیم نے والد سے یہ استفسار بھی کیا کہ کیا وہ ملزم کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور اسے اور اس کے شوہر کو معاف کرنے کے لیے تیار ہیں، تاہم انہوں نے واضح طور پر انکار کر دیا۔
ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ پولیس کو ابھی تصدیق شدہ میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) موصول نہیں ہوا، اس لیے ایف آئی آر میں متعلقہ سیکشنز ابھی تک شامل نہیں کیے گئے۔
جب انہیں بتایا گیا کہ شکایت میں ان کا تذکرہ کیا گیا تھا اور سرگودھا پولیس نے اسلام آباد پولیس کو ایم ایل سی بھی فراہم کیا ہے تو افسر نے کہا کہ یہ باضابطہ طور پر اور قانونی طریقے سے موصول نہیں ہوا۔
اسلام آباد پولیس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم کو بچی اور اس کے والد کا بیان مل گیا ہے۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ چائلڈ لیبر جرم ہے، اگر کسی کو اس بارے میں کوئی معلومات ہوں تو وہ پولیس کو مطلع کرے۔