• KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:45pm Isha 7:04pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:28pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:31pm

بچی پر تشدد کی ملزمہ کو ضمانت ملنا افسوس ناک ہے، وزیراعظم کی معاون خصوصی

شائع July 28, 2023
لڑکی کے رشتہ داروں نے واقعے پر احتجاج کیا تھا — فائل/فوٹو: ڈان نیوز
لڑکی کے رشتہ داروں نے واقعے پر احتجاج کیا تھا — فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے سول جج اسلام آباد کی گھریلو نوعمر ملازمہ پر تشدد کے کیس میں جج کی اہلیہ کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کا یہ واقعہ ناقابل برداشت ہے۔

لاہور جنرل ہسپتال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے امور نوجوانان شزا فاطمہ خواجہ نے کہا کہ ابھی ہم نے بچی سے بھی ملاقات کی ہے، بچی کی حالت اب بھی بہتر نہیں ہے، اور آکسیجن سپورٹ پر گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں ان کا اچھا خیال رکھا جا رہا ہے اور جو بورڈ بنا ہوا ہے وہ مسلسل جائزہ لے رہا ہے، طبی امداد کی حد تک حالات ٹھیک جارہے ہیں۔

بچی پر تشدد کے واقعے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت افسوس ناک واقعہ ہے، چاہے کوئی سیاست دان، بیوروکریٹ، جج، وکیل یا ڈاکٹر ہے یا سب سے طاقتور انسان ہو یہ ناقابل برداشت ہے۔

شزا فاطمہ خواجہ کا کہنا تھا کہ پنجاب کے ڈومیسٹک ورکرز بل کے تحت 15 سال سے کم عمر بچے کو گھر میں ملازمت پر رکھنا جائز نہیں ہے، اس طرح پہلے ہی قانون ٹوٹ جاتا ہے، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہے، دشمن کی بچیوں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور جنگ میں بھی بچوں اور عورتوں کا خیال رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اتنا ظلم کسی انسان پر کر دینا سمجھ سے بھی باہر ہے، اگر اس بچی کی حالت دیکھیں تو یہ عام انسان کی ذہنی کیفیت رکھنے والے شخص کی حرکت نہیں ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے جو بھی ملزمان ہیں، انہیں ضمانت ملی ہے، جس پر ہمیں افسوس ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، قانون اندھا ہوتا ہے، کسی وجہ سے کہتے ہیں تاکہ اس کے سامنے جو بھی کھڑا ہو اور انصاف کے لیے آئے تو وہ قانون اور ججوں کے سامنے برابر ہونا چاہیے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ کسی کو بھی ناجائز طریقے سے نہیں بچانا چاہیے اور نہ اس طرح انہیں گرفتاری سے روکنا چاہیے۔

پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں جو دفعات لگائی گئی ہیں، اس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، بچی کے والدین کے بھی اس پر تحفظات ہیں۔

شزا فاطمہ نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ان تحفظات کو دور کریں اور ایف آئی آر کو بہتر کریں، حکومت جہاں تک کھڑی ہوسکتی ہے، ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی نے کہا کہ آج اس بچی کے ساتھ ہوا ہے تو ہم سب کی بیٹیاں ہیں، ملازمتوں پر بھی جاتی ہیں اور شادی کرکے دوسرے گھروں میں بھی جاتی ہیں، اگر آج ہم اس بچی کو انصاف دلانے میں ناکام ہوئے تو کل ہم شاید اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ ہم اپنی بچیوں کے لیے انصاف مانگیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے جج کی اہلیہ کی یکم اگست تک حفاظتی ضمانت منظور کر لی تھی۔

اس موقع پر نیشنل کمیشن چائلڈ رائٹس کی چیئرپرسن عائشہ رضا نے کہا کہ اس جرم کے پیچھے جتنا بھی بااثر شخص ہے، اس کو کیفر کردار تک پہنچانا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔

انہوں نے پولیس کو مخاطب کرکے کہا کہ ایف آئی آر میں اقدام قتل کی شق شامل ہونی چاہیے، بچی کی حالت کے مطابق دھمکی اور تشدد کی شق نہیں بنتی، اس کے بازو، ہاتھ اور ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، اس کے زخم دیکھے نہیں جاسکتے۔

عائشہ رضا نے کہا کہ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، ہم سب کو مل کر اس واقعے کو ایک ٹیسٹ کیس بنانا چاہیے۔

مقدمہ

واقعے کا مقدمہ ہمک پولیس اسٹیشن میں لڑکی کے والد کی شکایت پر درج کیا گیا ہے، شکایت کنندہ پیشے کے لحاظ سے مزدور ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق اس نے اپنی بیٹی کو 10 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ایک جاننے والے کے ذریعے زرتاج ہاؤسنگ سوسائٹی میں جج کے گھر بھیجا۔

23 جولائی کو وہ اپنی بیوی اور ایک رشتے دار کے ہمراہ بیٹی سے ملنے جج کے گھر گیا تو بیٹی کو زخمی حالت میں ایک کمرے میں روتے ہوئے پایا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ اس کے سر پر نظر آنے والے زخموں کے علاوہ چہرے، بازوؤں اور ٹانگوں پر بھی زخم تھے، اس کا دانت ٹوٹا ہوا تھا، ہونٹ اور آنکھوں پر سوجن تھی۔

پوچھنے پر لڑکی نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ جج کی اہلیہ اسے روزانہ ڈنڈے اور چمچے سے مارتی تھی اور رات کا کھانا نہیں دیتی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ لڑکی کو ایک کمرے میں نظر بند رکھا گیا تھا، بعد ازاں اہل خانہ اسے سرگودھا ڈی ایچ کیو ہسپتال لے گئے جہاں لڑکی کی حالت بگڑنے پر اسے لاہور ریفر کر دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024