مدت پوری ہونے سے 48 گھنٹے قبل اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے گا، وزیر داخلہ
وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے 48 گھنٹے قبل اسے تحلیل کردیا جائے گا۔
وزیر داخلہ نجی ٹی وی کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کے دوران نگران حکومت کے حوالے سے کسی ڈیڈ لاک یا تاخیر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اسمبلی جس روز اپنی مدت پوری کر رہی ہے، اس سے 48 گھنٹے پہلے اسمبلی کو تحلیل کیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انتظامات کرنے کے لیے 60 کے بجائے 90 دن میسر ہوں اور اس میں کسی قسم کے ابہام کی ضرورت نہیں ہے۔
نگراں وزیر اعظم کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نگراں وزیراعظم کے لیے ایک نام آیا اور وہ مسترد ہو گیا، اسحٰق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، نہ مسلم لیگ (ن) نے یہ بات کی نہ ہی ہمارے کسی رہنما نے یہ بات کی، یہ افواہ ہو سکتی ہے جسے خبر بنا کر لیک کیا گیا، اس بات کی مسلم لیگ (ن) نے بھی تردید کی۔
تاہم رانا ثنااللہ نے تسلیم کیا کہ یہ تجویز زیر بحث ہے کہ کیا نگراں حکومت میں وزیراعظم ٹیکنوکریٹ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا، کوئی سابق بیوروکریٹ یا جج کے علاوہ کوئی سیاستدان نہیں ہو سکتا لیکن اس پر کوئی اتفاق رائے یا فیصلہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاستدان نگران وزیراعظم ہو سکتا ہے تو یقیناً وہ اسحٰق ڈار صاحب بھی ہو سکتے ہیں اور اسحٰق ڈار جیسا کسی اور جماعت کا کوئی سیاستدان بھی ہو سکتا ہے، اگر اس پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو کوئی سابق بیوروکریٹ یا سابق جج بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس میں ایک بنیادی چیز ہے کہ وہ ایک ایسا آدمی ہونا چاہیے جس کی کوئی ساکھ ہو اور سب متفق ہوں کہ یہ شخص اہل ہے اور اپنی ذمے داری بہتر طریقے سے پورا کر سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امن و امن کی صورتحال درست نہیں ہے، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے اور اسے کچلنے کے لیے ہر روز انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن ہوتے ہیں، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری نیک نیتی اور بہادری سے دہشت گردوں کا پیچھا کر رہے ہیں، روز ہمارے افسران اور جوان شہید ہو رہے ہیں، پولیس، رینجرز اور پاک فوج کے افسر اور جوان شہید ہوئے ہیں تو اس میں ریاست کی قطعاً کوئی کوتاہی نہیں ہے اور وہ دہشت گردی کے ناسور کو کچلنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ جہاں تک سوال یہ ہے کہ یہ ہوا کیسے تو پچھلی حکومت میں یہ پالیسی اپنائی گئی اور کچھ لوگوں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی اور یہ سمجھا گیا کہ یہ لوگ واپس آکر ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں گے اور معاشرے کا حصہ بن کر امن کے ساتھ زندگی گزاریں گے، لیکن وہ بات غلط ثابت ہوئی اور انہوں نے آکر وہی کام شروع کردیا جو وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات غلط فہمی پر مبنی ہے کہ نواز شریف کی سیاست میں بحالی کا اختیار حکومت کا تھا حالانکہ یہ اختیار حکومت کا نہیں تھا، میاں نواز شریف کو ایک ایسے فیصلے پر نااہل کیا گیا جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا اور سب کہتے ہیں کہ یہ ایک جانبدار فیصلہ تھا، یہ ایک ایسے چیف جسٹس نے دیا تھا جس کی ساکھ اور جانداری پوری طرح عیاں ہے اور وہ مختلف حوالوں سے ثابت بھی ہوئی بلکہ وہ خود بھی اس پر شرمسار ہے، تو یہ ایک عدالت فیصلہ ہے، ان کو جو سزا ہوئی وہ بھی ایک عدالتی فیصلہ ہے، بھلے اس جج نے بعد میں تسلیم کیا کہ اس نے دباؤ میں آکر غلط سزا دی لیکن عدالتی فیصلوں کے ختم ہونے کا ایک طریقہ کار ہے، وہ طریقہ کار اپنایا گیا اور مریم نواز بری ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کا واپس آنا اور اس طریقہ کار کو اپنانا آئین اور قانون کا تقاضا ہے، تو وہ جب بھی واپس آئیں گے تو اس طریقہ کار کو اپنایا جائے گا، وہ حفاظتی ضمانت لیں گے، عدالتوں میں پیش ہوں گے، ان کی اپیلوں پر سماعت ہوگی اور اس کے بعد وہ بری ہوں گے اور ان پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اور جو عملی سیاست سے سازش کے تحت الگ کیا گیا ہے، وہ ختم ہو جائیں گی۔