سفرنامہ ہسپانیہ:’غرناطہ بھی دیکھا میری آنکھوں نے۔۔۔‘ (چوتھی قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
دوسرے دن علی الصبح قرطبہ شہر بارش کی بوندوں سے پوری طرح بھیگ چکا تھا۔ غمگین آنکھوں اور اداس دل کے ساتھ ہم اپنی رہائش گاہ سے چند منٹ کے فاصلے پر موجود ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف رواں دواں تھے۔ اسپین آکر ہمیں یورپ کی تیز بارشوں کا اندازہ ہوا۔
چھتری نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسی میں بیٹھنے تک گالوں سے پانی ٹپکنا شروع ہوگیا تھا۔ بارش کی وجہ سے قرطبہ کی سڑکیں مزید خوبصورت ہوگئی تھیں۔ چند گلیوں میں گھومتے ہوئے ہماری ٹیکسی 10 منٹ میں قرطبہ شہر کے مرکزی بس اسٹیشن پر پہنچ گئی۔ سامان اتارنے کے ساتھ ہی ہم نے بس اسٹیشن کے مرکزی گیٹ کی جانب دوڑ لگا دی۔
چونکہ ہمارے پاس گرینیڈا (غرناطہ) جانے کے لیے ٹکٹس موجود نہیں تھے۔ اس لیے بس اسٹیشن پر موجود انفارمیشن سینٹر سے غرناطہ کے بس ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ کاؤنٹر کا پتا کیا تو انفارمیشن ڈیسک پر موجود خاتون آفیسر نے غرناطہ کے لیے اسٹینڈ پر موجود بس میں خالی نشستیں چیک کرکے بتایا کہ، ’15 منٹ بعد نکلنی والی بس میں تو صرف ایک سیٹ خالی ہے‘۔
’لیکن ہم تو تین ہیں‘، آفیسر کی بات کاٹتے ہوئے افتخار صاحب پریشانی کی حالت میں بول پڑے۔ خاتون آفیسر مسکرائی اور کہا کہ ’اگلی بس 45 منٹ بعد جائے گی۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
بس اسٹیشن پر جگہ جگہ ٹکٹ بکنگ کے لیے خودکار بوتھ بھی نصب کیے گئے تھے جن پر مقامی ہسپانوی لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔ ہم غرناطہ کے لیے مختص کاؤنٹر سے 45 یوروز کے عوض تین ٹکٹ خرید کر بس اسٹیشن پر موجود کیفے ٹیریا کی طرف چل پڑے۔ چونکہ ہم نے ناشتہ نہیں کیا تھا اس لیے بھوک بھی ستانے لگی تھی۔
کیفے میں رش کے باعث ایک چھوٹی میز کے ساتھ تین مختلف جگہوں سے کرسیاں اکٹھی کرکے ناشتے کا آرڈر دیا۔ ناشتے میں کیک، بریڈ اور سلیمانی چائے آرڈر کی۔ سلیمانی چائے میڈریڈ سے لے کر یہاں تک کے ہمارے ناشتے کا مستقل مینیو تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد تقریباً 5 منٹ پہلے ہی ہم بس میں اپنی سیٹوں پر پہنچ گئے۔
بس مسافروں سے بھر چکی تھی اس لیے اپنے مقررہ وقت پر قرطبہ شہر کی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔
خوش قسمتی سے مجھے ونڈو سیٹ ملی۔ ساتھ والی سیٹ پر افتخار صاحب جبکہ دوسری طرف سیٹوں پر عبداللہ شاہ صاحب کے ساتھ ایک بوڑھی ہسپانوی خاتون بیٹھی تھیں۔
’قرطبہ سے غرناطہ کا سفر کتنا ہوگا؟ افتخار صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’تقریباً 3 گھنٹے اور 10 منٹ کا، ان شااللہ۔ دوپہر 12 بجے تک ہم غرناطہ شہر پہنچ جائیں گے‘، میں نے جواباً کہا۔
بس قرطبہ شہر سے نکل کر سرسبز پہاڑی علاقے میں داخل ہوگئی۔ سڑک کے دونوں اطراف سرسبز وسیع وادیوں میں زیتون، انجیر اور مالٹوں کے باغات دور دور تک نظر آرہے تھے۔
’ہم غرناطہ میں کیا دیکھنے جارہے ہیں‘، افتخار صاحب نے ایک بار پھر سوال کیا۔
افتخار صاحب تاریخ سے نابلد تھے لیکن سیاحت کا شوق اور نئی جگہوں کے بارے میں جاننے کا شوق انہیں اسپین لے آیا تھا۔ اس سے پہلے وہ عبداللہ شاہ صاحب کے ساتھ مصر، ترکی اور لیبیا کا سفر بھی کرچکے تھے۔
میں نے افتخار صاحب کو اپنی طرف متوجہ کرکے غرناطہ کے بارے میں بتانا شروع کیا کہ ’غرناطہ اسپین کے صوبے اندلوسیہ کا مرکزی اور اہم شہر ہے جس کی اس وقت آبادی 2 لاکھ 36 ہزار نفوس ہے۔ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے جو سیرہ انوادہ پہاڑی سلسلے کے دامن میں سیکڑوں سالوں سے آباد ہے۔ مسلمانوں کے دور سے قبل اس شہر کا نام البیرہ (Albira) تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں یہ یونان کا صوبہ تھا اور اس کی سلطنت میں شمار ہوتا تھا۔ پہلی صدی میں رومنز نے یونانیوں کو یہاں سے بے دخل کیا تو پھر یہاں گوتھ (عیسائی) حکمران آئے۔ اس کے بعد غرناطہ نے طارق بن زیاد کا استقبال کیا۔
’موحدین کا دور جب اندلس میں ختم ہوا اور اُندلس میں مسلمانوں کے اختلافات سے ملک کئی ریاستوں میں تقسیم ہوا تو غرناطہ کو بھی ایک الگ ریاست کا درجہ حاصل ہوا۔ اس شہر کا عروج بنو نصر قبائل کے حکمرانوں کے دور سے شروع ہوا۔ بنو نصر حکمرانوں نے غرناطہ شہر کی سب سے بلند جگہ پر الحمرا محل جیسا شاہ کار تعمیر کیا جوکہ 800 سالوں تک پوری شان سے قائم ہے اور دنیا کے عجائب میں 10ویں نمبر پر ہے۔ اس کو دیکھنے کے لیے لاکھوں سیاح آتے ہیں۔
’الحمرا محل سمیت بہت سی یادگاریں اور اس شہر کا چپہ چپہ مسلمانوں کے شاندار ماضی اور مختلف تہذیبوں کے ادوار کی گواہی دیتا ہے۔ بس ہمیں ان مقامات کا دورہ کرنا ہے‘۔
’تو پھر ہمیں کتنے دن وہاں گزارنے ہیں؟‘ افتحار صاحب نے ایک اور سوال پوچھا۔
’غرناطہ شہر اور اس کے اردگرد تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے تقریباً ایک ہفتہ تو درکار ہوگا لیکن ہم کوشش کریں گے کہ دو دنوں میں زیادہ سے زیادہ مقامات دیکھ سکیں‘۔
’جی ٹھیک ہے‘، میرا جواب سن کر افتخار صاحب کچھ مطمئن ہوگئے۔
ہم 2 گھنٹے اور 30 منٹ کا سفر طے کرچکے تھے۔ ہماری بس غرناطہ کی جانب رواں دواں تھی۔ سرسبز وادیاں کھیت اور چھوٹے چھوٹے پہاڑی سلسلے گزر رہے تھے۔ خوشگوار موسم اور نیلا آسمان سفر کو مزید حسین بنا رہا تھا۔ خوبصورت سرسبز وادیوں میں دور دور تک زیتوں کی فارمنگ کی گئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم دنیا کے ایسے کونے پر آگئے ہیں جہاں زیتوں کےعلاوہ کوئی چیز اُگ ہی نہیں سکتی۔
تقریباً 45 منٹ مزید سفر کرنے کے بعد ہم غرناطہ شہر کے مضافات میں داخل ہوچکے تھے۔ سیرانوار یا سیرہ انوادہ کے پہاڑوں کے دامن میں واقع غرناطہ کے خوبصورت اور جدید شہر کے نظارے اب ہم سے صرف چند منٹوں کے فاصلے پر تھے۔ اس پہاڑی سلسلے میں دو دریا، ’جینل‘ اور ’ڈورو‘ بہتے ہیں جو بعد میں دغا کے مقام پر مل کر ایک دریا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ان دریاؤں سے غرناطہ شہر اور مضافات کی آب پاشی کا پورا نظام مسلمانوں کے دور میں ہی بنایا گیا تھا جو اب تک ہسپانوی لوگوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔
اتنے میں بس ڈرائیور نے اعلان کیا کہ ہم گرینیڈا (غرناطہ) پہنچ چکے ہیں۔ بس سے اترتے ہی ہم سردی سے کپکپانے لگے قرطبہ اور میڈریڈ کے مقابلے میں یہاں کا موسم ٹھنڈا اور ہوا خشک تھی۔
چونکہ الحمرا پیلس اور اس سے ملحقہ مقامات کو دیکھنے کے لیے پہلے سے ٹکٹ لینا ضروری ہوتا ہے اس لیے الحمرا محل کے مین گیٹ پر ٹکٹ لینے کے لیے آپ کو گھنٹوں پہلے جانا پڑتا ہے لیکن ہمارے پاس آن لائن بکنگ کا آپشن تھا۔
بس اسٹیشن پر موجود غرناطہ کی سیر کے لیے ٹورازم ایجنسی کی ڈیسک موجود تھی۔ یہاں سے معلومات لی تو ڈیسک پر موجود خاتون نے الحمرا محل کے ٹکٹ(15 یورو) کے علاوہ 35 یورو فی کس ٹور کے چارجز کا کہا۔
میرے پوچھنے پر ٹور کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے خاتون فرمانے لگیں کہ ’یہ ٹور پیدل ہوگا جس میں ہمارا گائیڈ آپ کو غرناطہ میں مسلمانوں کی پرانی آبادی البشین یا البایزین، یونیورسٹی آف گرینیڈا (اسلامی یونیورسٹی)، چرچ آف گرینیڈا اور اگلے دن الحمرا محل اور اس سے ملحقہ مقامات کے وزٹ کروائے گا جبکہ اس ٹور پیکچ میں مِیل (خوراک) شامل نہیں۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’میرے خیال میں تو آج اور کل کا دن ہم ٹور کمپنی کے ذریعے ہی ٹور کریں‘، افتخار صاحب نے بھی میرے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ ’بالکل ٹھیک ہے‘۔
’نہیں میرے خیال میں ہمیں میڈریڈ اور قرطبہ کی طرح آپ کی قیادت میں خود ہی ٹور کرنا چاہیے اور الحمرا محل کی ٹکٹ تم بیلجیئم یا روسی دوست کے ذریعے آن لائن کروالینا اور ویسے بھی ہم پھر ٹور کمپنی کے دیے گئے شیڈول کے پابند ہوں گے‘۔ عبداللہ شاہ کی رائے مجھے مناسب لگی۔ اس لیے ٹور بک نہ کرنے پر معذرت کرکے ہم غرناطہ کا نقشہ لے کر بس اسٹیشن سے باہر نکلے اور قریب ہی برگر کنگ کے ایک ریسٹورنٹ میں بھوک مٹانے کے لیے چپس اور بریڈ کا آرڈر دے کر غرناطہ کا نقشہ چھاننے لگے۔
آدھے گھنٹے کے بعد ہماری ٹیکسی غرناطہ شہر کی سڑکوں پر اپارٹمنٹ کی جانب رواں دواں تھی۔ یہاں بھی شہر کے مرکز میں بیلجیئم میں مقیم دوست تاج الدین نے آن لائن ایپ ’ایئر بی این بی‘ کے ذریعے ہمارا اپارٹمنٹ بُک کروایا تھا۔
کسی زمانے میں اندلس کے مسلمانوں کا عظیم شہر غرناطہ آج یورپ کے ایک جدید شہر گرینیڈا میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اونچی اونچی عمارتیں، کشادہ سڑکیں، شاپنگ مالز، کلبز اور سیاحوں کا جمِ غفیر جگہ جگہ پر نظر آرہا تھا۔ لیکن قصر الحمرا کے آس پاس پرانے غرناطہ شہر کی یادیں آج بھی اپنے پرانے محرابی دروازوں، حویلیوں اور فواروں والے صحن کے مکانوں کی صورت میں دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے۔
ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور ٹیکسی کے ڈرائیور رچرڈ نے سامنے پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ رہا الحمرا محل اور الحمرا کا قلعہ یہ آپ کی رہائش سے چند منٹ کی دوری پر ہے‘۔
الحمرا کا قلعہ غرناطہ کی پہاڑیوں کے اوپر بالکل ہمارے سامنے تھا۔ اس قلعے میں غرناطہ پر حکومت کرنے والے بنو نصر حکمرانوں کے محلات موجود ہیں۔ غرناطہ کا شہر ان پہاڑوں کے دامن میں آباد ہے۔ قصر شاہی اس قلعے کا ایک حصہ ہے اور قلعے کے اندر موجود ایوان اور باغات آج بھی دنیا بھر کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
4 ندیوں، سنگرو، جنیل، موناچیل اور بیرو کے سنگم پر واقع یہ شہر سطح سمندر سے اوسطاً 738 میٹر (2421 فٹ) کی بلندی پر ہے اس کے باوجود بحیرہ روم کے ساحل یہاں سے کار میں صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔
’یہ رہی آپ کی رہائش‘، رچرڈ نے سامنے اسٹریٹ میں ایک اپارٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور ہمارا سامان اتارنے لگا۔ رہائش کے سامنے دو کمروں پر مشتمل خوبصورت اپارٹمنٹ کے مالک نے ڈور لاک کوڈ سمجھاتے ہوئے خوش آمدید کہا۔
دو کمروں پر مشتمل اس اپارٹمنٹ میں ہر قسم کی سہولت موجود تھی۔ اب تک کی تمام رہائشوں میں یہ بہترین رہائش تھی۔ اپارٹمنٹ کے مالک سے وائے فائے پاسورڈ، قریب حلال ریسٹورنٹ اور نقشے پر موجود سیاحتی مقامات تک پہنچنے کے لیے رہنمائی لےکر رخصت لی۔ نماز کی ادائیگی اور تھوڑی دیر آرام کے بعد ہم رہائش کے قریب ہی مرکزی چوک میں پہنچے تو دیکھا کہ چوک کے درمیان میں ملکہ ازابیل اور مشہور مہم جو اور امریکا کو دریافت کرنے والے کولمبس کے مجسمے ہیں۔
ان مجسموں میں ملکہ تخت پر تاج پہن کر بیٹھی کولمبس کو ایک کاغذ پر لکھا اپنا فرمان دے رہی ہے۔ کولمبس شاہی فرمان کو شاہی آداب کے مطابق جھک کر وصول کررہا ہے، یہی وہ اجازت نامہ ہے جس کے ذریعے کولمبس نے امریکا کی دریافت کو ممکن بنایا اور دنیا کی تاریخ بدل ڈالی۔
اس چوک سے کچھ ہی فاصلے پر اسلامی دور کے قدیم مرکزی علاقے میں پہنچے جو باب رملہ کہلاتا ہے جہاں پر غرناطہ کا مرکزی شاہی کیتھڈرل یعنی چرچ آف گرینیڈا موجود ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس مرکزی چرچ کے عمارت کے سامنے کھڑے تھے۔ چرچ کے مین گیٹ کے سامنے لگے بورڈ سے معلوم ہوا کہ اس جگہ پہلے غرناطہ کے مسلمانوں کی مرکزی جامع مسجد تھی لیکن مسلمانوں کی شکست کے بعد مسجد کی عمارت کو چرچ میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ دنیا کا چوتھا بڑا کیتھیڈرل ہے۔ اس کے اندر 5 چیپل یعنی عیسائی مذہب کے مختلف مکاتب فکر کی عبادت گاہیں موجود ہیں۔
چرچ کے مین گیٹ کے سامنے 10ویں صدی میں تعمیر کردہ اسلامی درسگاہ (مدرسہ) موجود ہے جو کہ آج کل یونیورسٹی آف گرینیڈا کا حصہ ہے۔ مدرسے کی اس عمارت میں اس دور کی یادگاریں بھی موجود ہیں۔ اس درس گاہ کو خلیفہ یوسف اول نے 1349ء میں قائم کیا تھا۔
یہاں پر قرآن پاک، تفسیر حدیث، تاریخ، فلسفہ اور منطق جیسے علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ غرناطہ کے مسلمانوں کی تقریباً 800 برس کی عالیشان حکومت نے علم وادب کے میدان میں ایسی شمعیں روشن کی تھیں جس کی روشنی نے پورے یورپ کو علم و ادب کے نئی منزلوں کا سراغ دیا اور اس مدرسے کی یہ خوبصورت عمارت اس کی ایک تابندہ مثال ہے۔
عظیم فلسفی ابن خلدون جب تیونس سے غرناطہ آئے تو جہاں وہ یہاں پر قیام کے دوران سلطان محمد پنجم کے سفیر کے طور پر کام کرنے لگے وہاں اس درس گاہ میں اُس دور کے طالب علموں میں علم کی روشنی پھیلاتے رہے۔ یونیورسٹی آف گرینیڈا کے اس وقت اندلوسیہ ریجن میں 5 کیمپس ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں طلبہ و طالبات یہاں سے مختلف علوم میں ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔
چرچ اور یونیورسٹی کے ساتھ متصل گلی میں اسلامی دور کی قدیم مارکیٹ ’قیصریا‘ بھی تھی۔ اس وقت اس مارکیٹ میں ریشم کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ اس مارکیٹ میں سیاحوں کی ضرورت کی مختلف اشیا کی دکانیں سلیقے کے ساتھ سجائی گئی تھیں۔ ہماری خواہش تھی کہ ہم اندھیرے سے پہلے غرناطہ میں مسلمانوں کی پرانی بستی البایزین کو دیکھ لیں اور غروب آفتاب کے مناظر دیکھنے کے لیے غرناطہ کے ویو پوائنٹ پر پہنچ جائیں۔
اس لیے قیصریا کی قدیم مارکیٹ کی طرف جانے کی بجائے ہم اپنی اگلی منزل البایزین روانہ ہوئے۔ گوگل میپ کے مطابق البایزین کی بستی 10 منٹ کے فاصلے پر تھی۔ اس لیے مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم البایزین کے خوبصورت بازار میں پہنچے جہاں بازار کے دونوں اطراف مراکشی اور ترکش مسلمانوں کی خوبصورت دکانیں موجود تھیں۔
بھوک کی شدت بڑھ گئی تھی۔ اس لیے عبداللہ شاہ صاحب کے مشورے کے مطابق ہم نے حلال ریسٹورنٹ کی تلاش شروع کردی۔ چونکہ یہاں بڑی تعداد میں مراکش، ترکی اور عرب کے دوسرے ممالک سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مختلف کاروباروں میں مصروف عمل نظر آرہے تھے اس لیے ہمیں چند قدم پر ہی حلال ریسٹورنٹ نظر آنا شروع ہوگئے۔
یوں ہم ایک مراکشی ریسٹورنٹ میں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بیٹھ گئے۔ مراکش سے تعلق رکھنے والے اس ریسٹورنٹ کے مالک حبیب نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ چاول اور گوشت سے جب خوب سیر ہوگئے تو حبیب سے گپ شپ کے دوران پتا چلا کہ اس وقت غرناطہ میں 15 ہزار سے زائد مسلمان آباد ہیں جن کی اکثریت مراکش اور دیگر ممالک سے روزگار کی تلاش کے لیے یہاں پہنچی تھی۔
ڈیڑھ ہزار کے قریب مقامی عیسائی بھی مسلمان ہوئے ہیں جن میں کچھ طلبہ بھی ہیں جو مقامی یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے اپنے اپنے ملک سے آئے ہیں۔ اس ریسٹورنٹ سے اوپر کی طرف پہاڑی کے عین اوپر بستی میں سان نکلس چرچ موجود ہے جوکہ غرناطہ کا ویو پوائنٹ بھی ہے۔ اسی کی قریب ایک گلی میں اب مسلمانوں نے خوبصورت جامع مسجد بھی تعمیر کروادی ہے اور اسی مسجد کے اردگرد زیادہ مسلمان آباد ہیں۔
کھانے کے بعد ہم البایزین کی تاریخی آبادی کو کھنگالنے نکل پڑے۔ عمودی چڑھائی پر واقع یہ 10 کلو میٹر طویل علاقہ 700ء سے لےکر 1600ء تک کی جانے والی تعمیرات پر مشتمل ہے جنہیں اپنی اصل حالت میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ البائزین بستی میں پرانے محرابی دروازے، اسلامک آرٹ سے مزین درودیوار اور مکانوں کے صحن میں لگے فوارے آج بھی شان سے موجود ہیں اور عہد ماضی کے درخشاں دور کی یاد دلاتے ہیں۔
عمودی چڑھائی چڑھتے چڑھتے میرے ہم سفر ساتھیوں کا برا حال ہوچکا تھا۔ اس پورے سفر میں مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ میرے ساتھ بزرگوں کی ٹیم ہے اور میں مسلسل ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔
راستے میں چرچ آف سان سیلواڈور کی عمارت کے ساتھ کچھ دیر رکے۔ یہ چرچ سولہویں صدی میں البایزین مسجد کے اوپر تعمیر ہوا تھا جو اپنے غیر معمولی محرابوں، عرب طرز کی چھتوں اور روایتی انداز کے پانی کے اسٹوریج کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس چرچ کا فنِ تعمیر بھی اپنی مثال آپ ہے۔
آخر کار ہم البائزین بستی کے بلند ترین مقام سان نکلس چرچ پر پہنچ چکے تھے۔ سان نکلس چرچ آج سے 600 سال قبل مسجد تھا لیکن جب مسلمانوں کا زوال ہوا تو کچھ عرصے بعد عیسائیوں نے اس کو عبادت گاہ کے طور پر منتخب کیا اور پھر مسجد کو چرچ میں بدل دیا گیا۔
چرچ کے صحن میں سیکڑوں سیاح گھوم رہے تھے کیونکہ یہ شہر کو دیکھنے کے لیے سب سے بہترین مقام تھا۔ اگر اس مقام کو اسلام آباد کے مونال (پیر سوہاوہ) سے تشبیہ دی جائے تو مناسب ہوگا۔ یہاں سیاحوں کا رش دیدنی ہوتا ہے۔
یہاں سے نہ صرف الحمرا محل کا نظارہ کیا جاسکتا ہے بلکہ یہاں سے غروب اور طلوع آفتاب کے مناظر بھی سیاحوں کو دیر تک مقید رکھتے ہیں۔ ہم چرچ کے صحن میں موجود سیاحوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ یہاں سے الحمرا محل، غرناطہ شہر اور دور مولائے حسن کے پہاڑی سلسلے کے مناظر مدہوش کن تھے۔
یہاں پر نظر آنے والے غروب آفتاب کے مناظر نے مجھے کافی دیر تک سکتے میں رکھا کیونکہ اس سے پہلے ایسا خوبصورت منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
چونکہ تھکاوٹ سے برا حال تھا اور یہ جگہ پرسکون اور دلکش نظاروں سے بھرپور تھی اس لیے کافی دیر فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم قصر الحمرا کی طرف ڈھلوانی میدان میں قدیم وجدید بازار کی طرف چل پڑے۔ البایزین کی تمام گلیوں کو چھوٹے چھوٹے پتھروں پر سیمنٹ لگا کر پختہ کیا گیا تھا۔
یہاں سے ایک راستہ البایزین سے متصل جپسی لوگوں کی سیکرو مینٹو نامی غاروں کی طرف جاتا ہے۔ جپسی وہ مظلوم قوم ہیں جن پر تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑا ظلم ہوا اور انہیں غلام بنا کر رکھا گیا جبکہ ہٹلر نے ان کا قتل عام کیا۔ جپسی نسل ہزاروں سال پہلے پنجاب اور اس سے قریبی علاقوں سے ہجرت کرکے افغانستان سے ترکی اور پھر یورپ آئے۔ غرناطہ پر جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تو عیسائیوں نے انہیں تنگ کرنا شروع کردیا۔ عیسائیوں کے خوف سے جپسیوں نے ان غاروں میں پناہ لی اور ابھی تک انہی غاروں میں مقیم ہیں۔ ان میں زیادہ تر عیسائی مذہب سے وابستہ ہیں جبکہ کچھ مسلمان بھی ہیں۔ ان غاروں میں جپسی مرد اور عورتیں شام ہوتے ہی اسپین کے مشہور روایتی ڈانس سے سیاحوں کا دل بہلاتے ہیں اور شام ہوتے ہی ان غاروں میں ہلا گلا شروع ہوجاتا ہے۔
آج بھی زیادہ تر سیاحوں کا رخ ان غاروں کی طرف ہی تھا لیکن ہم غاروں کی طرف جانے کی بجائے نیچے ڈھلوان کی طرف حدرہ ندی کے کنارے پر پہنچ گئے۔ الحمرا محل کے نچلے کنارے پر واقع اس ندی کو عرب حدرہ اور رومن اسے دارو کہتے تھے۔ رومن زبان میں دارو (Darro) کا مطلب سونا ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں اس ندی میں لوگ سونا تلاش کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ اس ندی کا نام دارو پڑ گیا۔
ندی کے کنارے ایک قدیم محل تھا۔ یہ شاہی خاندان کے بچوں کے لیے درس گاہ تھی۔ چونکہ رات ہوچکی تھی اس لیے ہمیں محل کے اندر جانے کا موقع نہیں مل سکا۔
قریب ایک ترکش ریسٹورنٹ میں چائے پینے کے بعد ہم واپس مرکزی چوک پہنچ چکے تھے۔ دن کا کھانا دیر سے کھایا تھا اس لیے مزید کھانے کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے ہم واپس اپنے اپارٹمنٹ پہنچ گئے۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد دونوں ہم سفر دوست آرام کے لیے اپنے کمروں میں گھس گئے جبکہ میں اگلے دن الحمرا محل میں داخلے کے آن لائن ٹکٹ اور اشبیلیہ سے بارسلونا کی فضائی ٹکٹس بک کروا کر لاؤنج میں ہی صوفے پر تھوڑی دیر میں خراٹے لینے لگا۔
تصاویر بشکریہ لکھاری
عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔