اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی 5 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں جرح کے دوران دستاویزات طلبی کی استدعا مسترد ہونے، الیکشن کمیشن کے گواہ کے کمپلیننٹ اور بیان حلفی پر دستخط مختلف ہونے، توشہ خانہ فوجداری کیس سننے والے جج کے خلاف، سائفر معاملے پر طلبی کا نوٹس چیلنج کرنے، مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے اور گرفتاری سے روکنے کی چیئرمین پی ٹی آئی کی5 درخواستیں قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جرح کے دوران دستاویزات طلبی کی استدعا مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے سیشن کورٹ کا حکم اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیلوں پر سماعت کی، چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، کیا آپ کی تین درخواستیں ہیں آج، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہماری تین درخواستیں آج عدالت کے سامنے ہیں، 21 جولائی کا ٹرائل کورٹ کا جرح کے دوران کا حکم چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر پر جرح کے دوران دستاویزات طلبی کی استدعا کی گئی تھی، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ہونا تو یہ چاہیے جو بھی اعتراضات ہوں، اس پر فیصلہ ہونا چاہیے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہمارے خلاف جب ریکارڈ استعمال ہو رہا ہے تو پھر اس کو طلب بھی کرنا چاہیے، یا تو ہمارا اعتراض منظور کیا جاتا اور ریکارڈ طلب کیا جاتا، یا پھر الیکشن کمیشن کی تمام کارروائی مقدمے سے علیحدہ کردی جانی چاہیے تھی۔
عدالت نے کہا کہ بنیادی طور پر گواہ سے الیکشن کمیشن کی کارروائی سے متعلق پوچھ رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ گواہ پر جرح کے دوران ہمارا اعتراض تھا توشہ خانہ پر کارروائی کا ریکارڈ منگوائیں، اس کیس میں ہمارے خلاف الیکشن کمیشن کی توشہ خانہ پر کارروائی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کے سامنے توشہ خانہ کیس کی جو پروسیڈنگز ہوئیں؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جی، توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کے سامنے جو کارروائی ہوئی، آدھی بات تو وہ بتا رہے ہیں باقی نہیں بتا رہے کارروائی کیا ہوئی، ریفرنس سے لے کر الیکشن کمیشن کے فیصلے تک کا ریکارڈ نہیں لائے، میں نے یہی کہا گواہ الیکشن کمیشن کی کارروائی کی بات کر رہا ہے وہ ریکارڈ بھی منگوا لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے مکمل ریکارڈ یا اس کا کچھ حصہ طلب کرنے کا کہا ؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے ریفرنس سے لیکر فیصلے تک کا ریکارڈ طلب کرنے کی استدعا کی ہے ، میں الیکشن کمشن کے آرڈر کو چیلنج نہیں کر رہا ریکارڈ طلب کرنے کی استدعا کر رہا ہوں۔
اس کے ساتھ ہی الیکشن کمیشن سے ریکارڈ طلبی کی ایک درخواست پر خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
اس کے بعد الیکشن کمشن کے گواہ کے کمپلیننٹ اور بیان حلفی پر دستخط مختلف ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔
خواجہ حارث گواہ سے سوال ہوا کہ کیا بیان حلفی اور کمپلینٹ پر اپکے دستخط مختلف ہیں؟ الیکشن کمیشن کے گواہ نے کہا کمپلینٹ اور بیان حلفی پر اس کے دستخط مختلف ہیں، جرح کے دوران پھر گواہ نے کہا ایک جگہ میرے مختصر دستخط تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کر رہے ہیں گواہ نے جرح کے دوران جو کہا اس کو جسٹفائی کرنا ہے ؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جی بالکل اس نے جسٹفائی کرنا ہے یا وہ جھوٹ بول رہا ہے، میرا سارا کیس یہ ہے کہ یہ بدنیتی پر بنایا گیا کیس ہے یہ بنتا ہی نہیں تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے شریف فیملی کے خلاف گواہ کا مزاح کے طور ہر حوالا دیا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ گواہ واجد ضیا ہے اس کیس میں ، ایک گواہ جھوٹ بول رہا ہے اس کی ساکھ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی کمپلینٹ کے دستخط کے 18 جولائی کے آرڈر کے خلاف درخواست پر دلائل مکمل کرلیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی تیسری درخواست پر بھی سماعت ہوئی، توشہ خانہ فوجداری کیس سننے والے جج پر چیئرمین پی ٹی آئی کے اعتراض سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ میں نے پوسٹ سے متعلق نہیں دیکھا، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ آپ ضرور دیکھ لیجئے گا ایف آئی اے کے پاس تو پورا سیل ہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر تو وہ ٹھیک ہیں یا غلط ہیں، دونوں صورتوں میں اپنے اثرات ہیں۔
وکیل نے کہا کہ دو تین دنوں کی بات ہے جو بھی ہو کلئیر ہو جائے ، چیف جسٹس نے کہا کہ صرف پاکستان میں نہیں پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا وہ بڑی بد قسمتی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی دو درخواستوں پر سماعت کی۔
ایف آئی اے کی جانب سے سائفر سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی طلبی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ یہ بڑا افسوس ناک ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس بھی محفوظ نہیں جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی تو ریکارڈنگ سامنے آئی تھی۔
لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا صرف یہ وزیر اعظم نہیں بلکہ کسی بھی وزیر اعظم کا فون ٹیپ ہونا جرم ہے، لطیف کھوسہ نے کہا سائفر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل نے ڈسکس کیا پھر امریکا سے احتجاج بھی ہوا، امریکا کو پیغام دیا گیا تھا کہ ریاست پاکستان کے لیے یہ قابل قبول نہیں ہے، جب وزیر اعظم کو عہدے سے ہٹایا گیا تو پھر نئی حکومت تشکیل پائی۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت دوبارہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں سائفر کو دوبارہ کنفرم کیا گیا، سائفر کنفرم ہوا، مداخلت کنفرم ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت نے ردعمل دیا، ایک بار پھر امریکا کو بھرپور پیغام دیا گیا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ کابینہ کی ڈائریکشن پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی، کیا کابینہ ایف آئی اے کو ہدایات دے سکتی ہے؟ پارلیمانی کمیٹی بلا لیں وہاں اس معاملے کو ڈسکس کر لیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ 30 نومبر 2022 کے ایف آئی اے کے نوٹس کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر کی کاپی بھی میں نے ساتھ منسلک کی ہے، ہمیں کہا گیا اسلام آباد کا نوٹس ہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ جائیں، بنیادی طور پر 19 جولائی کا ایف آئی اے کا نوٹس چیلنج کیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی سابق وزیراعظم ہیں، کوئی پتا نہیں کیوں بلایا ہے یہ بادشاہت ہے۔
لطیف کھوسہ نے مزید کہا کہ ہمارے دبنگ وزیر داخلہ کہتے ہیں انکوائری کے وقت گرفتار کر لیا جائے گا، عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کے بعد کیس قابل سماعت ہونے متعلق فیصلہ محفوظ کیا۔
اس کے علاوہ ایک ماہ کے اندر درج نئے مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتاری سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات کی تفصیل فراہم کی جائیں، عدالت چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار وکیل کے دلائل سننے کے بعد پانچوں درخواستیں قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔