ماضی کے جھروکے سے: شہرت کی بلندیوں کو چھونے والا پروگرام کسوٹی
کچھ کھیل ایسے ہوتے ہیں جو کسی جغرافیے میں محدود نہیں رہتے بلکہ ایک ثقافتی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔
کوئی زندہ یا مردہ شخصیت ہو، کوئی تاریخی عمارت یا کسی غیرمعروف کتاب کا کوئی مصنف، کسوٹی پہلے کی طرح آج بھی جوابات بوجھنے کے لیے بہترین کھیل تصور کیا جاتا ہے۔ کسوٹی کے کھیل کو نصف صدی سے لوگ پسند کرتے آرہے ہیں جس نے پی ٹی وی کے مشہور کوئز شو سے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔
حتیٰ کہ وہ لوگ جو کسوٹی لفظ کے معنیٰ تک نہیں جانتے (معنیٰ: جانچ یا پرکھ کا معیار) ان کے ذہن میں بھی کسوٹی کا نام سن کر یہ کھیل ہی آتا ہے۔
اپنے بہترین دماغی کھیل سے عبیداللہ بیگ اور افتخار عارف کی مقبول جوڑی کو 20 سوالات کی حد میں جواب بوجھنا ہوتا تھا۔ 1968ء میں شروع ہونے والے اس پروگرام کی اکثر میزبانی مرحوم قریش پور کیا کرتے تھے (کچھ وقت کے لیے حمایت علی شاعر نے بھی میزبانی کی)۔ اس کھیل نے کوئز پروگرام کے طریقہ کار کو ہی تبدیل کردیا۔
1964ء کے آخر میں پاکستان میں ٹیلی ویژن متعارف کروایا گیا۔ فروری 1965ء میں ٹی وی نے کامیابی سے اپنا پائلٹ فیز مکمل کیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے متنازعہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو چند دنوں پہلے ہی شکست دی تھی، پاکستان کی معیشت زرعی انقلاب کے بعد ترقی کررہی تھی، طلبہ بڑھ چڑھ کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے، پاکستان کوئی جنگ بھی نہیں لڑ رہا تھا جبکہ 1954ء سے پہلے کی بولی وڈ فلمیں بھی پاکستانی سنیما گھروں میں چلائی جارہی تھیں۔
لاہور کے شہریوں میں اپنے آرام دہ گھروں میں فلمیں دیکھنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا تھا کیونکہ ٹی وی ہفتے میں 6 دن چلتا تھا۔ شروعات میں نشریات نے ریڈیو پاکستان کو سخت مقابلہ دیا لیکن ریڈیو کے ذریعے کچھ سال قبل اسکول براڈکاسٹنگ کو متعارف کروایا گیا تھا جوکہ بہت سے طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔
’چیستان‘ جیسے کوئز شوز کی میزبانی موہنی حمید اور ابوالحسن نغمی کرتے تھے جبکہ پروگرام ’اکیسواں سوال‘ میں میزبان فرہاد زیدی جامعات کے طلبہ کو 20 سوالات پیش کرتے تھے۔ یوں ریڈیو ’اطلاع دینے، تعلیم دینے، تفریح کرنے‘ کی بہترین مثال تھا اور اسی مثال کو بعد میں پی ٹی وی نے بھی اپنایا۔
پاکستان میں ٹی وی کے بانی تصور کیے جانے والے اسلم اظہر نے بہت سی چیزیں ریڈیو سے متاثر ہوکر اپنائیں۔ وہ مغرب پر نظر رکھتے تھے اور پاکستانی قوم کے بھی نبض شناس تھے، وہ جانتے تھے کہ انہیں عوام تک کیسا مواد پہنچانا ہے۔ پی ٹی وی لاہور کے ابتدائی برسوں میں ڈرامے، سائنسی پروگرام اور کوئز مقابلے نشر کیے جاتے تھے جنہیں دیکھنے کے لیے لوگ نشریات کے اختتام تک جاگتے رہتے تھے۔ اسلم اظہر کو باصلاحیت لوگوں کو تلاش کرنے اور تربیت دینے میں مہارت حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متعدد ستاروں کو ٹیلی ویژن اسکرین کے لیے تیار کیا۔
1965ء کے وسط میں لاہور سے دور ایک نوجوان لکھنؤ یونیورسٹی سے اپنا ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد کراچی پہنچا۔ وہ اس وقت تک کوئی نامور شخصیت، شاعر یا اسکالر نہیں تھے، اسی لیے انہیں ریڈیو پاکستان میں خبریں پڑھنے کی نوکری ملی۔ ان کے دو مشاغل تھے، ایک مشغلہ صبح بہتر ملازمت کی تلاش جبکہ دوسرا شام کو ریڈیو پر خبریں پڑھنا۔
افتخار حسین عارف یاد کرتے ہیں کہ ’عبیداللہ بیگ ہندی سروس کے ’ڈی فیکٹو انچارج‘ اور میں بلیٹن میں جو خبریں پڑھتا تھا، ان کا ترجمہ کرنے کا ذمہ دار تھا۔ مشہود احمد اور قریش پور فارسی سروس سے منسلک تھے۔ عبیداللہ عرف حبیب بھائی (حبیب اللہ بیگ ان کا اصل نام تھا) سواہیلی سروس سے بھی خبروں کا ترجمہ کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ فوراً گھر کے لیے روانہ نہیں ہوتے تھے اور ہم فارسی سروس کے عملے سے ملتے تھے جوکہ دیر سے آتے تھے۔
’چونکہ ہمارے پاس وقت ہوتا تھا اس لیے ہم نے آپس میں ایک کھیل کھیلنا شروع کیا جس میں کوئی ایک فرد، شخصیت/چیز/جگہ کا انتخاب کرتا تھا جبکہ دیگر کو اسے بوجھنا ہوتا تھا۔ ہارنے والے کو ناشتے کا بندوبست کرنا ہوتا تھا اور یوں کھیل اور ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوتا تھا۔
’کبھی کبھار اس کھیل میں غازی صلاح الدین بھی ہمارا ساتھ دیتے تھے جنہوں نے بعدازاں صحافت کی دنیا میں خوب نام کمایا۔ 1966ء کے اواخر میں ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس پر ایک اسکرپٹڈ شو کا آغاز ہوا جوکہ اسی کھیل پر مبنی تھا جو ہم کھیلا کرتے تھے۔ جلد ہی 10 منٹ کا یہ سیگمنٹ مقبول ہوگیا۔ ریڈیو پاکستان میں ایکسٹرنل سروسز کے ڈائریکٹر سلیم گیلانی بھی اس کھیل میں شامل ہوئے جوکہ براہِ راست نشر ہوتا تھا لیکن پہلے سے طے شدہ ہوتا تھا اور یوں ہم مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
’اسی دوران پی ٹی وی کراچی کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد سب تاریخ کا حصہ ہے‘۔ افتخار عارف نے یہ تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جب وہ کراچی آئے تو ان کی جیب میں صرف 2 ہزار روپے تھے۔
افتخار عارف کے سوا کسوٹی پروگرام کا کوئی ممبر اب حیات نہیں ہے۔ افتخار عارف کو اس پروگرام کی تفصیلات ایسے یاد ہیں جیسے یہ سب کل ہی کی بات ہو۔
انہوں نے بتایا کہ ’اسلم اظہر کو پروگرامز کا انچارج مقرر کردیا گیا جس کے بعد وہ نت نئے آئیڈیاز کی تلاش میں تھے۔ سلیم گیلانی صاحب ایک اتوار ہم تینوں کو اسلم اظہر سے ملاقات کرنے لے گئے۔ سلیم گیلانی امریکی کوئز شو ’20 کوئیشنس‘ سے واقف تھے اس لیے ممکن ہے کہ انہوں نے ہی اس پروگرام کا خیال پیش کیا ہو۔ ہمیں اسٹیڈیم روڈ کراچی پر واقع پی ٹی وی کراچی میں ایک ٹیسٹ پاس کرنا تھا۔ خوش قسمتی سے 10 میں سے 7 سوالات کا درست جواب دے کر ہم نے کوالیفائی کرلیا۔ یہ پی ٹی وی پر کسوٹی کی ابتدا تھی۔ چونکہ اس وقت پیر کو چھٹی ہوا کرتی تھی اس لیے ہمیں اگلے ہی دن سے پروگرام کرنے کے لیے کہا گیا‘۔
مارچ 1968ء میں پی ٹی وی پر کسوٹی کی نشریات کا آغاز ہوا جس میں چند وقفے بھی آئے اور اس کی نشریات 1976ء تک جاری رہیں۔ افتخار عارف، عبیداللہ بیگ اور قریش پور پی ٹی وی سے منسلک ہوگئے اور یوں ریڈیو سے ان کا تعلق ختم ہوگیا۔ اس وقت تک امان خان خیشگی کی میزبانی میں ’زینا بہ زینا‘ پی ٹی وی پر نشر ہونے والا واحد کوئز شو تھا۔ کسوٹی لوگوں کی زندگیوں پر اتنا اثرانداز ہوا کہ لوگوں نے دفتروں میں کھانے کے وقفوں کے دوران اسے کھیلنا شروع کردیا اور طلبہ اپنے فارغ اوقات میں ساتھی طلب علموں کے ساتھ کلاس رومز میں کسوٹی کھیلنے کو ترجیح دینے لگے۔
یہ تینوں افراد جلد ہی مقبول شخصیات بن گئے جبکہ افتخار عارف اور عبیداللہ بیگ کو متعدد بار لوگوں نے سڑکوں پر روکا اور اَن جان لوگ ان سے شخصیات بوجھنے کو کہتے۔
عبید اللہ بیگ کا شو کے دوران تفصیلات کا خلاصہ کرنا بذات خود ایک شاندار انداز تھا لیکن افتخار عارف کا اپنے بالوں پر انگلیاں پھیرنا اور انگلی میں انگوٹھی گھمانے کا انداز اتنا مشہور ہوا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے یہ انداز شو سے بھی زیادہ مشہور ہوئے۔
کسوٹی کی کامیابی کے بعد پی ٹی وی کے مختلف مراکز سے بھی اسی طرز کے پروگرامز کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میں صحافی حمید شیخ کا ’اکیسواں سوال‘، پروگرام ’پہچانیے‘ جس میں عزیز کارٹونسٹ ناظرین کے لیے تصاویر بناتے تھے، اسکریبل جس کی میزبانی جہانگیر آزر کرتے تھے، محمد ادریس کی میزبانی میں میزان اور شعیب ہاشمی کا پروگرام ’پرکھ‘ شامل ہیں۔
1977ء میں سیاسی سیٹ اپ میں تبدیلی کے بعد افتخار عارف کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ملک میں کیا ہونے والا ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی سے استعفیٰ دیا اور برطانیہ چلے گئے۔ برطانیہ میں انہوں نے ایک شاعر اور دانشور کے طور پر اپنا نام بنایا، بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) میں شمولیت اختیار کی اور ایک دہائی سے زائد عرصے تک اردو مرکز کی سربراہی کی۔ کسوٹی کی ٹیم ختم ہوچکی تھی لیکن یہ ٹیلی ویژن کوئز شو اس وقت واپس آیا جب افتخار عارف 1990ء کی دہائی میں جمہوریت کی واپسی کے ساتھ ہی پاکستان واپس لوٹے۔
عبیداللہ بیگ اور قریش پور نے دَیٹس اِٹ کے نام سے یہی شو ایک بار پھر این ٹی ایم چینل پر شروع کیا۔ تاہم غازی صلاح الدین نے افتخار احمد کی جگہ لے لی جو اس کھیل میں ایک بڑا نام بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر غازی صلاح الدین نے عبیداللہ بیگ کے اصرار پر افتخار عارف کی جگہ نہ لی ہوتی تو ہماری ایک نسل اس بہترین پروگرام سے محروم رہ جاتی۔
کسوٹی کے مخصوص جملے جیسے ’زندہ یا مردہ‘، ’مرد یا عورت‘، تعلق برِاعظم ایشیا سے ہے؟’ ان تمام کی ایک بار پھر ٹیلی ویژن پر واپسی ہوئی لیکن اس بار انہیں ادا کرنے والے افتخار عارف نہیں تھے۔ وہ اکیڈمی آف لیٹرز کی سربراہی اور ایران میں فارسی زبان و ادب کی اکیڈمی کے بورڈ آف گورنرز کے اعزازی رکن منتخب ہونے جیسی اعلیٰ ملازمتوں میں مصروفِ عمل تھے۔
اردو شاعری میں اپنی گراں قدر خدمات کے لیے افتخار عارف کو تمغہ حسن کارکردگی اور ہلالِ امتیاز جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا لیکن وہ شاید اپنے کسوٹی کے دنوں کی وجہ سے ہی زیادہ مقبول ہیں۔
ایک دفعہ افتخار عارف کو پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز میں تعینات کرنا تھا، اسی مقصد سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو دستخط کرنے کے لیے کاغذات پیش کیے گئے جس پر انہوں نے پوچھا کہ ’یہ وہی ہیں نا جو کسوٹی میں اپنی انگوٹھی سے کھیلتے تھے؟‘
یہ مضمون 23 جولائی 2023ء کو ڈان آئیکون میں شائع ہوا۔