کھیلوں کی دنیا میں سعودی عرب کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ
ایک جانب جہاں سعودی عرب دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول رہا ہے وہیں انسانی حقوق کے اپنے خراب ریکارڈ کے باعث وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہے۔ حالیہ تنازع جس نے سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہ کھیلوں کی دنیا میں اس کی موجودگی اور اس پر عائد ’اسپورٹس واشنگ‘ کے الزامات ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں سعودی عرب نے اپنے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کا ایک بڑا حصہ مغربی اداروں جیسے پروفیشنل گولفرز ایسوسی ایشن آف امریکا (پی جی اے)، فارمولا ون ریسنگ اور ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ سے شراکت داری قائم کرنے میں خرچ کیا ہے۔
اپنی قومی فٹبال لیگ میں کھیلنے کے لیے سعودی عرب کرسٹیانو رونالڈو جیسے بڑے فٹبالرز کو بھی اپنی جانب متوجہ کررہا ہے جبکہ وہ مملکت کی تشہیر کے لیے لیونل میسی جیسی بااثر شخصیات کی خدمات بھی حاصل کررہا ہے۔
حال ہی میں سعودی عرب نے خواتین کے ٹینس ٹورنامنٹس کی میزبانی میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا ہے جبکہ اسے فیفا ورلڈ کپ 2030ء کی میزبانی کے لیے بھی مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا ہے۔
اگرچہ ان تمام کوششوں پر خرچ ہونے والی حقیقی رقم کا اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن یہ یقینی طور پر اربوں ڈالر میں ہوگی۔
اسپورٹس واشنگ آخر ہے کیا؟
کھیلوں کی دنیا میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی شمولیت کو مغربی ممالک میں زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی۔
ہیومن رائٹس واچ اور دیگر مغربی مبصرین نے سعودی اقدامات کو اسپورٹس واشنگ کہا ہے ، مبصرین کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب ان اقدامات کے ذریعے بین الاقوامی سطح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔
اس کی ایک مثال یمن میں سعودی عرب کی 8 سالہ پراکسی جنگ کے دوران کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک ٹھوس دستاویزی ریکارڈ ہے۔
اپریل میں یمن کے حوثی جنگجوؤں کے ساتھ سعودی عرب کے متنازع امن معاہدے کے باوجود اس جنگ نے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو داغ دار کردیا ہے۔
یہ امن معاہدہ اس وقت ہوا جب سعودی عرب کو ایک اہم ری برانڈنگ کی ضرورت تھی، تو کیا یہ معاہدہ سعودیوں کے لیے بس جنگ سے علحیدگی اختیار کرنے کا ایک راستہ تھا؟
ملک میں سیاسی آزادیوں اور حقوق کے حوالے سے حکومت کی جانب سے سخت پابندیاں ہیں۔ خواتین اور اقلیتوں پر چند پابندیاں کم تو کی گئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مخالفین کے خلاف سخت اقدامات کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔
صرف گزشتہ سال کی بات کی جائے تو حکومت کے خلاف تنقیدی سوشل میڈیا پوسٹنگ میں ملوث ہونے پر خواتین کارکنان سلمیٰ الشہاب کو 34 سال جبکہ نورہ بنت سعید القحطانی کو 45 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
ابھی حال ہی میں، بہت سے حویطات قبائلیوں کو دہشت گردی کے الزام میں صرف اس لیے موت کی سزا سنائی گئی کیونکہ انہوں نے ایک میگا سٹی پروجیکٹ کے خلاف پرامن احتجاج کیا تھا۔ اس پروجیکٹ سے ان کے آبائی گاؤں کو خطرات لاحق تھے۔
ایک نئے سعودی برانڈ کی تشکیل
اگر کھیلوں کی سرگرمیوں میں ملک کی بڑھتی ہوئی شمولیت کی بات کی جائے تو اس میں یقینی طور پر انسانی حقوق کے مسائل بھی شامل ہیں لیکن اس کے محرکات صرف صارفین کو متوجہ کرنا نہیں بلکہ اس سے بہت زیادہ اسٹریٹجک ہیں۔
بنیادی طور پر ان اقدامات کو سعودی وژن 2030ء میں شمار کیا جا سکتا ہے جس میں ملک کو بطور برانڈ دوبارہ تشکیل دینے اور اسے لبرل بین الاقوامی نظام کا حصہ بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
بیرونی مبصرین عالمی سطح پر سعودی عرب کو الگ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسے تنگ نظر سوچ رکھنے والا اور دیگر عالمی ممالک سے علحیدہ ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے جس پر ایک ہی خاندان کی حکمرانی ہے اور یہ خاندان اپنے اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے تیل سے حاصل ہونے والی دولت اور مذہبی انتہاپسندی کا استعمال کرتا ہے۔
لیکن سعودی عرب کی اس تخفیف آمیز عکاسی کی وجہ سے اس کی پیچیدہ اور بھرپور تاریخ کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ تاہم مغرب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس نقطہ نظر کو مختلف پہلوؤں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
ماضی میں شاہی خاندان خود سے منسلک کیے جانے والے تنگ نظر خیالات سے مطمئن تھا کیونکہ اندرونی سلامتی اور تحفظ اس کی ترجیح تھے۔ سعودی عرب نے اسلامی دنیا کے علاوہ دیگر ممالک میں سافٹ پاور کے لیے کوششیں بھی کم ہی کیں۔
بین الاقوامی آرٹ، کلچر اور کھیلوں کی دنیا کو سعودی عرب میں رائج اقدار اور ثقافت کے برعکس سمجھا جاتا تھا۔ تاہم 2015ء میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے بادشاہ بننے اور محمد بن سلمان کے ولی عہد کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ کم عمر محمد بن سلمان نے ملک کے کئی اہم محکموں کا چارج سنبھالا۔
اپنے تنگ نظر پیشروؤں کے مقابلے میں شہزادہ محمد بن سلمان کو سعودی روایات کو زیادہ خاطر میں نہ لانے والا سمجھا جاتا ہے اس لیے انہیں نظام میں ’خرابی‘ پیدا کرنے والے کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ سلیکون ویلی کے اپنے دیگر دوستوں کی طرح محمد بن سلمان کو تیز رفتاری سے کام کرنا اور روایت شکن ہونا اچھا لگتا ہے اور اس روایت شکنی میں مذہبی اداروں سے لے کر تعمیرات تک سب شامل ہیں۔
محمد بن سلمان متحدہ عرب امارات یا قطر کی طرح سعودی عرب کے نام کو بھی ایک جدید آمرانہ ٹیکنوکریسی کے طور پر دوبارہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ وہ ان کامیاب مثالوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے معاشی اصلاحات، عسکری جدت، ٹیکنالوجی میں ترقی، ثقافتی جدت اور بین الاقوامی سطح پر ثقافتی تبادلے اور روابط قائم کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا سے روابط قائم کرنے کا ایک نیا پلیٹ فارم
2018ء میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد محمد بن سلمان کی کوششوں کو جھٹکا لگا۔ انہوں نے اس قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا جبکہ امریکا کی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹس اس کے برعکس تھیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی غم و غصے نے شہزادے کی ساکھ کو اتنا نقصان تو پہنچا دیا ہے کہ بطور سیاستدان ان کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں ہے۔
لیکن یہ معاملہ جلد ہی دب گیا۔ صحافی کے قتل کے 5 سال بعد محمد بن سلمان کے سعودی عرب کی ری برینڈنگ کے ایجنڈے میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ یہیں پر سعودی عرب کی کھیلوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا معاملہ آتا ہے اور یہ بھی کہ ہمارے لیے اسے سمجھنا کیوں ضروری ہے۔
مختلف کھیلوں میں سعودی عرب کے کنٹرول اور اثر نے اس کے لیے متعدد راستے کھول دیے ہیں۔ سعودی عرب اب کھیلوں کو دنیا کے ساتھ ثقافتی رابطے میں شامل ہونے، عالمی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور خود کو جدید اور متحرک ملک کے طور پر پیش کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
مختصراً کہا جائے تو یہ اسپورٹس واشنگ دلکش تو ہے لیکن اس طرح ہم وسیع تر اور اسٹریٹجک اقدامات کو کم کرکے دیکھتے ہیں۔
درحقیقت اسپورٹس واشنگ کے تصور میں یہ بات مضمر ہے کہ سعودی عرب اچانک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے وابستگی پر تشویش میں مبتلا ہوگیا ہے۔ لیکن اگر قطر اور متحدہ عرب امارات کی مثالوں کو مدِنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آمرانہ حکومتیں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے سے نہیں گھبراتیں بلکہ اس سب کے باوجود یہ لبرل عالمی نظام کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک اس نظام کو برقرار رکھنے کے لیے قابلِ قدر کام کرتے ہیں۔
ایک جانب جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سعودی عرب کی کوششوں کو متاثر کرتی رہیں گی وہیں دوسری جانب محمد بن سلمان یقین دلاتے ہیں کہ وہ دیگر ریاستوں اور کمپنیوں کے راستے میں نہیں آئیں گے اور وہ ایک بین الاقوامی سطح کی ثقافتی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ اگر اس سب کا تاریخ سے کچھ لینا دینا ہے تو شاید وہ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں۔
یہ مضمون 16 جولائی 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔