• KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 3:29pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:33pm Asr 4:15pm
  • LHR: Zuhr 12:03pm Asr 3:29pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:28pm

’مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں میں مثبت کردار بھی ادا کرسکتی ہے‘

شائع July 19, 2023

اگر مصنوعی ذہانت کے پاس ضمیر یا احساسات ہوتے تو اب تک ہم اپنے عجیب سوالات اور گرامر کی غلطیوں سے اسے ناراض کر چکے ہوتے۔ تصور کیجیے کہ آپ ایک انتہائی عقلمند شے سے مدد طلب کریں اور وہ آپ کو طنزیہ انداز میں جواب دے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اتنی طاقتور ٹیکنالوجی کا دانشمندانہ استعمال کرنا چاہیے۔

تو آئیے ایک ایسے موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں جس کی گونج آج ہمیں ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہم انسانی تخلیقات اور مشین لرننگ کی صلاحیتوں کے درمیان ہم آہنگی کا کوئی نقطہ تلاش کرسکتے ہیں؟

ایک ایسی دنیا کا تصور کیجیے جہاں تخلیقی صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کا ملاپ ہوسکے۔ آج کی دنیا میں ہر چیز ممکن ہے اور تخلیقی دنیا خصوصاً اشتہارات کی دنیا کو مصنوعی ذہانت نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسٹوری بورڈنگ سے لےکر اسکرپٹ رائٹنگ تک، تخلیقی ماہرین کے لیے مصنوعی ذہانت ایک اہم آلہ بن چکی ہے۔ لیکن اس سب پر بات کرنے سے پہلے، میں اس دور کی تعریف ضرور کرنا چاہوں گا جس میں آج ہم سب رہ رہے ہیں۔ یہ کیا شاندار دور ہے! ہم میں سے وہ لوگ جن کی پیدائش 1980ء اور 1990ء کی دہائی کی ہے، ان لوگوں نے ٹیکنالوجی دنیا میں شاندار ارتقا دیکھا ہے۔ یہ انسانی تاریخ میں ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا انقلاب ہے جو مختلف شعبوں میں ہمارے رویوں، روایات اور عادات کو تشکیل دیتا ہے۔

تخلیقی ماہرین کے لیے مصنوعی ذہانت ایک اہم آلہ بن چکی ہے
تخلیقی ماہرین کے لیے مصنوعی ذہانت ایک اہم آلہ بن چکی ہے

لیکن ظاہر ہے طاقت کے ساتھ ساتھ بڑی ذمہ داریاں بھی آتی ہیں۔ اس لیے یہ ہمارے اختیار میں ہوتا ہے کہ ہم صحیح اور غلط کے درمیان کس طرح فرق کریں۔ کیا آپ کو وہ وقت یاد ہے جب اسمارٹ فونز ہماری زندگیوں میں شامل ہوئے تھے؟ کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ لوگوں کی روزمرہ زندگیوں میں اس کا استعمال اس حد تک بڑھ جائے گا اور یہ کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ اب گوگل میپس جیسے دیگر سیٹلائٹ نقشوں کا بھی ہماری زندگیوں میں عمل دخل کتنا بڑھا چکا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے ہم نے رہنمائی کا کام بھی اب ٹیکنالوجی پر چھوڑ دیا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ انقلاب انسانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں میں مثبت کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر تصور کریں کہ آپ کے پاس کام کرنے کے لیے آئرن مین کے جاروس جیسا کوئی پروگرام ہے۔ آپ ٹونی اسٹارک کی طرح خود کو بااختیار تصور کرنے لگیں گے کیونکہ جاروس آپ کے خیالات کو فوری طور پر حقیقت کا روپ دے رہا ہوگا۔ آپ مصنوعی ذہانت کو کمانڈ دیتے ہوئے اس کی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے اپنی پوری توانائی اور تخیل کو استعمال کریں گے۔ نظری طور پر آپ کے شعبے میں جو کچھ بھی ممکن ہوگا آپ اس کا استعمال کرنا چاہیں گے۔ تو ہم تخیلقی شعبوں جیسے اسکرپٹ رائٹنگ، آئیڈیئشن اور اسٹوری بورڈنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر ایسا محسوس کیوں نہیں کرتے؟

اب بات کرتے ہیں اشتہارات کی اور یہ کہ کیسے مصنوعی ذہانت نے اس شعبے میں انسانی صلاحیتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آپ مصنوعی ذہانت کو ایک جاندار اور کبھی نہ تھکنے والا رفیقِ کار سمجھیے جوکہ اپنے شاندار خیالات اور تخیلات کا سہرا اپنے سر کبھی نہیں لیتا۔ جب آپ نے اپنے اسٹوری بورڈ آرٹسٹ سے بات چیت کرنی ہو تو وہی گفتگو آپ مصنوعی ذہانت سے بھی کیجیے۔ اس میں بھی اسٹوری بورڈ آرٹسٹ بننے کی صلاحیت ہے جو بہت تیزی سے کام کرتا ہے۔

آپ جب تک اس کے تخلیق کردہ مواد سے مطمئن نہیں ہوتے تب تک یہ آپ کے لیے کام کرتا رہے گا۔ لیکن پھر یہاں ایک اہم نکتہ اٹھا ہے اور وہ ہے ایک توازن پیدا کرنا۔ جیسے ہم نے ماضی میں انسانی مہارت کو بھلا کر مشینوں پر انحصار کرنا شروع کیا، کوشش کرنی چاہیے کہ دیگر طاقتور ٹیکنالوجیز کے ساتھ اب ہم اپنی پرانی غلطیاں نہ دہرائیں۔

ہم مصنوعی ذہانت سے متاثر ضرور ہوسکتے ہیں لیکن انسانوں کو اس میں خود بھی حصہ لینا چاہیے کیونکہ اشتہارات کی دنیا میں صارفین ہماری تخلیقی صلاحیتوں کے لیے رقم ادا کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ایک ایسا مستقبل ہمارا منتظر ہوگا جہاں السٹریٹرز اور آرٹسٹ نہیں ہوں گے جوکہ انسانیت کا بڑا نقصان ہوگا۔

خوش قسمتی سے ایسی قومیں ہیں جو اس توازن کو قائم کرنے کے لیے دانش مندانہ اقدامات اٹھارہی ہیں۔ ایک طرف جہاں دنیا کے کچھ ممالک میں آڈیو اور ویژول مواد نے ہمیں کتابیں پڑھنے سے دور کردیا ہے وہاں مغرب کے کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کتاب پڑھنے کی روایت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کئی کتابوں کے لاکھوں نسخے تو کتاب کے مارکیٹ میں آتے ہی فروخت ہوجاتے ہیں۔

ہم مصنوعی ذہانت سے متاثر ضرور ہوسکتے ہیں لیکن انسانوں کو اس میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہیے
ہم مصنوعی ذہانت سے متاثر ضرور ہوسکتے ہیں لیکن انسانوں کو اس میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہیے

خیالات کی تخلیق اور اسکرپٹ رائٹنگ ایسے شعبہ جات ہیں جہاں ہم نے بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کو مددگار پایا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اسکرپٹ رائٹرز نئے خیالات تخیلق کرسکتے ہیں اور اپنی تحریری صلاحیتوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ لینگویج ایلگورتھمز کے استعمال سے اپنی اسکرپٹ، رفتار اور لکھنے کے طریقے کار پر تجزیہ لینے کے لیے آپ مصنوعی ذہانت کو اپنا رفیقِ کار سمجھیں۔

یہ یاد رکھیں کہ آپ ایگزیکٹو رائٹر ہیں اور تخلیق کردہ مواد کے آپ براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ مصنوعی ذہانت صرف بہتر اور تیزی سے وسائل مہیا کرنے میں آپ کی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ جب آپ مصنوعی ذہانت کے ساتھ رفیقِ کار والا رویہ اپناتے ہیں تو یہ آپ کے لیے چند منٹوں میں لاتعداد کام سرانجام دیتی ہے۔ یہ آپ کی کہانی کے لیے ایک بہترین نقطہ پیش کرتا ہے جس کی مدد سے آپ اسے مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں اور اسے مؤثر طریقے سے بروئے کار لاسکتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر متعدد مماثل موضوعات پر موجود مواد کا تجزیہ کرکے یہ کرداروں کی تشکیل میں بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ رائٹرز بلاک (اگر یہ واقعی موجود ہے) کو قابو میں رکھنے میں مدد کرسکتا ہے اور خیالات کی تشکیل کے لیے ایک بہترین اور غیرجاندار ساتھی بن سکتا ہے۔ مزید برآں کہانیوں کی مخصوص صنف یا فلموں کی ڈائریکشن کے طرز میں بھی مصنوعی ذہانت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

اب مصنوعی ذہانت کی دلچسپ دنیا کو مزید تفصیل سے دیکھتے ہیں جس میں ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی تازہ مثال آئی بی ایم کے واٹسن اشتہارات ہیں جن میں ٹویوٹا کمپنی کی اشتہاری مہم کو موثر بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے۔ صارفین کی ترجیحات، رویوں اور مفادات کا تجزیہ کرکے مصنوعی ذہانت نے ہر صارف کے اعتبار سے مخصوص اشتہارات کو تخلیق کیا۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا سامنے آیا؟ ٹویوٹا نے صارفین کی دلچسپی میں 500 فیصد کا حیرت انگیز اضافہ دیکھا۔ یہ ہے اشتہارات کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کا اثر!

اب میکڈونلڈز کی مومنٹس آف جوئے نامی اشتہاری مہم کو بھی یاد کرتے چلیں جس میں آے آئی ایلگورتھم کی مدد لی گئی۔ لاکھوں ڈیٹا پوائنٹس کا تجزیہ کرکے اس ایلگورتھم نے ایک ہزار سے زائد طرح کے اشتہارات تخیلق کیے جن میں میکڈونلڈز کے صارفین کے خوشی کے لمحات اور ان کے تجربے کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس خصوصی طریقے کی وجہ سے میکڈونلڈز میں صارفین کی دلچسپی میں 70 فیصد تک کا اضافہ ہوا اور ایڈ ریکال (ذہن میں محفوظ رہ جانے والے اشتہارات) میں 60 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ ہوا۔

سنیما کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کے شاندار استعمال کی مثال ہمیں فلم ’سن سپرنگ‘ میں ملتی ہے۔ یہ فلم اینڈ کیو نے پروڈیوس کی جس میں اسکرپٹ کی تخیلق میں مصنوعی ذہانت کی معاونت حاصل کی گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں سائنس فکشن اسکرپٹس کا تجزیہ کرنے کے بعد اے آئی ایلگورتھم نے ایک اوریجنل اسکرین پلے تخلیق کیا جوکہ اس فلم کی بنیاد ہے۔ اگرچہ یہ فلم باکس آفس میں ناکام رہی لیکن اس نے اسکرپٹ رائٹنگ کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ کیا معلوم آئندہ چند برسوں میں ہولی وڈ کا اگلا تخلیقی ماہر مصنوعی ذہانت ہو۔

اگر ہم میوزک کی بات کریں تو اس معاملے میں اسپوٹیفائی کا نام سامنے آتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسپوٹیفائی ایسے اشتہارات بناتا ہے جن میں سامعین کے ذوق کے مطابق ہی گانوں کو ترتیب دیا گیا ہوتا ہے۔ صارفین کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اس کے اشتہارات میں ان کے پسندیدہ گانے اور گلوکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایڈ ریکال میں 20 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے جبکہ برینڈ کی آگاہی بھی 14 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔

سامعین کے ذوق کے مطابق مصنوعی ذہانت اسپوٹیفائی کے لیے اشتہارات بناتی ہے
سامعین کے ذوق کے مطابق مصنوعی ذہانت اسپوٹیفائی کے لیے اشتہارات بناتی ہے

جیسے جیسے ہم مستقبل کی جانب جارہے ہیں، ہم تخلیقی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے مزید جدید استعمال کی توقع کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم اپنی آسانی اور مصنوعی ذہانت کی لامحدود صلاحیت کے درمیان توازن قائم کریں۔ یہ ضروری ہے کہ ہر طرح سے مصنوعی ذہانت پر ضرورت سے زیادہ انحصار نہ کریں کیونکہ اس سے ہم آہستہ آہستہ انسانی صلاحیتوں کو کھو دیں گے۔

پروفیشنل شعبہ جات میں مصنوعی ذہانت کے نفاذ کے حوالے سے اہم خدشات میں سے ایک ممکنہ طور پرملازمتوں کا خاتمہ بھی ہے۔ یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ انسانوں میں صلاحیت اور مہارت پیدا کرنے کو ترجیح بنایا جائے جس کا مصنوعی ذہانت ہرگز متبادل نہیں ہے۔ اور کیا پتا ہے کہ شاید ہمیں مستقبل میں نوکریوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔


یہ مضمون 14 جولائی 2023ء کو ڈان اورورا میں شائع ہوا۔

اسرار عالم
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024