نقض امن کا خطرہ: چوہدری پرویز الہٰی 30 روز کیلئے لاہور جیل میں نظر بند
لاہور کیپیٹل سٹی پولیس کی درخواست پر ڈپٹی کمشنر نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کی 30 روزہ نظر بندی کے احکامات جاری کردیے۔
ایس پی ماڈل ٹاؤن اور ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ نے ہفتہ کے روز تین مقدمات میں امن عامہ میں خلل ڈالنے اور لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکسانے کے خدشے پر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی حراست کے لیے ڈپٹی کمشنر کے پاس تحریری درخواست جمع کرائی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان کے جیسا سیاست دان امن عامہ کی صورت حال خراب کرسکتا ہے اور اس بات کا حقیقی خدشہ موجود ہے کہ نہ صرف وہ بلکہ ان کے حامی بھی نجی و سرکاری املاک کو نقصان اور سڑک بلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
درخواست کے مطابق ایس پی ماڈل ٹاؤن اور ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ کو باوثوق اطلاع ملی ہے کہ اگر انہیں (پرویز الہٰی) کو رہا کیا گیا تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر امن و امان کی صورتحال بگاڑ سکتے ہیں اور اس کا نتیجہ 9 مئی جیسے واقعے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔
مذکورہ درخواست پر ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر نے کہا کہ کیپیٹل سٹی پولیس افسر کے فراہم کردہ مواد/شواہد اور ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس کی سفارشات پر میں سمجھتی ہوں کہ کسی بھی عوام مقام پر چوہدری پرویز الہٰی کی موجودگی عوام کے تحفظ کے لیے سنگین خطرہ اور امن و امان خراب کرنے کا سبب بن جائے گی۔
چنانچہ پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کی سیکشن 3 کے تحت چوہدری پرویز الہٰی کی 30 روز کے لیے نظر بندی کے احکامات جاری کیے جاتے ہیں، انہیں لاہور کی کیمپ جیل میں سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں زیر حراست رکھا جائے گا۔
اس ضمن میں پرویز الہٰی کے وکیل عامر سعید راں نے ڈان نیوز سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الہٰی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ تمام مقدمات میں ان کی ضمانت منظور ہوچکی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ عدالت دہشت گردی کے مقدمے میں بھی پرویز الہٰی کو حفاظتی ضمانت دے چکی ہے۔
عامر سعید راں نے کہا کہ قانونی ٹیم نے پی ٹی آئی کے صدر کی نظر بندی کا نوٹی فکیشن چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، امید ہے ہائی کورٹ نظر بندی کے احکامات معطل کردے گی۔
نظر بندی کےخلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت
پرویز الٰہی کی نظری بندی کے خلاف درخواست کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، جسٹس علی باقر نجفی نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔
وکیل عامر سعید راں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے غیر قانونی طور پر نظر بندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا، پرویز الٰہی کی تمام مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے۔
چوہدری پرویز الہٰی کی نظر بندی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی جس میں ان کے خلاف درج مختلف مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت، ضمانت بعد از گرفتاری اور رہائی کے احکامات کا حوالہ دیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر یکم جون 2023 سے ان کی آزادی کو سلب کر رکھا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر کا جاری کردہ نظر بندی کا حکم نامہ قانونی طریقہ کار کے مطابق نہیں جاری کیا گیا، اس لیے وہ غیر قانونی ہے اس لیے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ فریقین نے بدنیتی کے ساتھ درخواست گزار کی مخالف اور اس وقت وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی ملی بھگت سے ایک کے بعد ایک وجہ کے تحت انہیں قید کر رکھا ہے۔
ساتھ ہی استدعا کی گئی کہ ڈپٹی کمشنر نے 16 جولائی کو جاری کردہ حکم نامے کے خلاف درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔
درخواست گزار نے مزید استدعا کی کہ نظر بندی کے احکامات کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے اور لاہور جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو درخواست گزار کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ چوہدری پرویز الہٰی کو رہا کرنے کا حکم اور مزید کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کی ہدایت بھی جاری کی جائے۔
چوہدری پرویز الہٰی کی 30 روز کے لیے نظر بندی کی درخواست ان کے وکلا عامر سعید راں، طاہر نصر اللہ وڑائچ، آصف محمود چیمہ، محمد مختار رانجھا، چوہدری فرمان اور محمد کاشف کچھی کی جانب سے دائر کی گئی۔
پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات
پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔
اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔
مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔
9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔
اسی روز قومی احتساب بیورو (نیب) حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔
12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔
20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکے کیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔
اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔
جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظور کی تھی۔
تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔
پھر 4 جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پرویز الہٰی کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست کو ان کے گھر پر چھاپہ مارنے والی پولیس ٹیم پر حملہ کرنے کے کیس میں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
تقریباً ایک ہفتے بعد لاہور ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے آئی جی میاں فاروق کو ہدایت کی کہ وہ جیل میں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کے فقدان سے متعلق پی ٹی آئی صدر کی شکایات کا ازالہ کریں۔
12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔
اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔