• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

عدالت کی اجازت کے بغیر موبائل فون ڈیٹا کی جانچ غیر قانونی قرار

شائع July 16, 2023
جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس امجد رفیق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا — فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس امجد رفیق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا — فائل فوٹو: ہائی کورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز فیصلہ سنایا کہ کسی فرد یا مشتبہ شخص کے ذاتی موبائل فون کی جاسوسی یا ڈیٹا نکالنا عدالت کی اجازت کے بغیر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس امجد رفیق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کالعدم تنظیم کے ایجنڈے کا پرچار کرنے کے ملزم کی اپیل پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ مجرمانہ کارروائی کے دوران کسی ملزم کے ذاتی فون سے معلومات نکالنا ایک سنگین مسئلہ ہے جس نے اس موضوع پر قانون کا جائزہ لینے کی جانب ہماری توجہ مبذول کروائی۔

جسٹس امجد رفیق کی جانب سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ اس جدید دور میں لوگ سیل فونز کی دنیا میں رہ رہے ہیں، قریبی دوستوں اور عزیزوں سے بات چیت کر رہے ہیں، آڈیو یا ویڈیو کالز کے ذریعے بات کر رہے ہیں اور اس کے ذریعے مواد اور پیغامات عوامی اور نجی طور پر شیئر کر رہے ہیں، لہٰذا ہمارا فون ایک گھر کی طرح ہے یا اس سے کم نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہر رشتہ خواہ گھریلو ہو یا نجی جسے لوگ اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر رکھتے ہیں، آئین کے تحت قانونی طور پر محفوظ ہے، ہم جانتے ہیں کہ انسانی رجحانات کی کوئی حد نہیں ہے، یہ مذہب، تصوف، نظریہ، سیاست، فن، ثقافت، رسوم و رواج، روایات، ادب، موسیقی، شاعری، تاریخ، کاروبار، کھیل وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ کوئی بھی چیز کسی فرد کو اپیل کر سکتی ہے، جس کے لیے وہ کتابوں، ویب سائٹس، علما سے رجوع کرسکتے ہیں، اس طرح علم کی تلاش قانون کے تحت ممنوع نہیں ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کوئی ایسی معلومات جسے کوئی شخص اپنے سیل فون میں خفیہ رکھنا چاہتا ہے، اسے اس کی رضامندی یا قانون کی ہدایت کے بغیر نہیں نکالا جاسکتا کیونکہ گھر کی رازداری قانون کے تابع ہے۔

انہوں نے فیصلہ دیا کہ ایک بنیادی آئینی حق کے طور پر رازداری کے حق کا مقصد گھریلو قانون کو کسی بھی دوسری متضاد دفعات پر فوقیت دینا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ متعلقہ قانون میں واضح ہے کہ انفارمیشن سسٹم میں محفوظ ڈیٹا حاصل کرنے یا اس طرح کے ڈیٹا پر مشتمل آرٹیکلز کو ضبط کرنے کے لیے عدالت کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، وارنٹ حاصل کر کے یا 24 گھنٹے کے اندر اس طرح کے ضبطی کے بعد عدالت کو اطلاع دی جانی چاہیے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ لہٰذا جب کسی مشتبہ شخص سے کوئی موبائل فون برآمد ہوتا ہے اور اس فون سے کوئی بھی ڈیٹا نکالنا ضروری ہو جو کہ تفتیش کے لیے مطلوب ہو تو یہ صرف متعلقہ عدالت کی اجازت سے حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کی آئین کے تحت رازداری کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔

ججوں نے کہا کہ متعلقہ مجسٹریٹ کی جانب سے حکم کی ضرورت اس صورت حال میں ہے جہاں پولیس کو کسی مشتبہ شخص کو گرفتار کرتے وقت موبائل فون سے معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہو۔

مشتبہ شخص کا مؤقف سننے کے بعد مجسٹریٹ آئین کے آرٹیکل 14 کو سختی سے پیش نظر رکھتے ہوئے صرف کیس سے متعلقہ معلومات نکالنے اور اس کی جانچ کا حکم دے سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ امریکا میں یہ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنے موبائل فون کی بغیر وارنٹ تلاشی مسترد کرے، پاکستان بھی نظام تحفظ کے انہی اصولوں کی نشاندہی کرتا ہے جو امریکا میں ہے اور اس طرح کی ممانعت اور تحفظات آئین کے آرٹیکل 9، 12، 13، 14 اور 24 میں شامل ہیں۔

بینچ نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 13 (بی) واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ کسی کو بھی اپنے خلاف گواہ بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، لہذا آپ کا موبائل فون جانچ پڑتال کے لیے پیش کرنا آپ کو کسی بھی جرم کے لیے مجرم قرار دے سکتا ہے کیونکہ ضرروی نہیں کہ آپ کو یہ علم ہو کہ آپ نے اپنے فون میں رضامندی سے کوئی چیز محفوظ کی ہے یا رضامندی کے بغیر کسی چیز کو اس میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا ہے، اس لیے یہ خود کو جرم قرار دینے کے مترادف ہوگا جو کہ آئین کے تحت ممنوع ہے۔

ان مشاہدات کے ساتھ بینچ نے درخواست گزار رحمت اللہ کی اپیل منظور کی اور گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے 3 بار سنائی گئی 2 سال کی سزا کو کالعدم قرار دیا۔

بینچ نے استغاثہ کی جانب سے اپیل کنندہ کے موبائل فون سے مواد یا شواہد نکالنے اور مناسب قانونی عمل کے بغیر ڈیٹا پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کو جانچ کے لیے بھیجنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

بینچ نے مشاہدہ کیا کہ مشتبہ شخص کے ذاتی موبائل فون سے ان کی رضامندی کے بغیر ڈیٹا نکالنا اچھا عمل نہیں تھا کیونکہ یہ رازداری کے حق کی آئینی ضمانت کی مخالفت کرتا ہے۔

ججوں نے کہا کہ اگر ملزم رضامندی دینے کے لیے تیار نہیں تھا تو کم از کم مجسٹریٹ سے اجازت لی جانی چاہیے تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024