وزیراعظم کی لاہور میں آصف زرداری اور جہانگیر ترین سے ملاقات
وزیر اعظم شہباز شریف نے لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور استحکام پاکستان پارٹی کے سرپرست اعلیٰ جہانگیر خان ترین سے ایک ایسے موقع پر الگ الگ ملاقاتیں کیں جب تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ مرکز میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرقیادت حکمران اتحاد کے اہم اتحادی آصف علی زرداری نے آج وزیر اعظم سے پنجاب کے دارالحکومت میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جہاں دونوں نے ملک کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
ایک اور ٹوئٹ میں وزیر اعظم کی جماعت نے کہا کہ انہوں نے آج استحکام پاکستان پارٹی کے صدر جہانگیر ترین کی عیادت کی اور ان کے بھائی عالمگیر خان ترین کے انتقال پر تعزیت کی جن کی مبینہ طور پر خودکشی کی وجہ سے موت واقع ہو گئی تھی۔
یہ ملاقاتیں ایک ایسے موقع پر ہوئیں جب 15 ویں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں صرف چار ہفتے باقی ہیں جہاں یہ مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے اور سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم شہباز نے بروقت انتخابات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگست میں حکومت کی باگ ڈور نگراں سیٹ اپ کے حوالے کر دی جائے گی۔
تاہم، وزیراعظم یا حکمران اتحاد کے کسی دوسرے رہنما کی طرف سے اس بارے میں کوئی عندیہ نہیں دیا گیا کہ انتخابات کب ہوں گے جہاں ان کا مسلسل کہنا ہے کہ انتخابات کا شیڈول جاری کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار ہے۔
اسی طرح نگراں حکومت کے امیدواروں پر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے درمیان قانونی طور پر ضروری مشاورت کا آغاز ہونا بھی ابھی باقی ہے۔
اس حوالے سے آج ڈان کے اداریے میں لکھا گیا کہ متعدد متنازع کرداروں کے نام زیر گردش ہیں اور یہ انتہائی خاموشی کے ساتھ ہو رہا ہے کہ بہت سے لوگ اس عبوری سیٹ اپ کے اصل ’مینڈیٹ‘ کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں جس کا اعلان کیا جائے گا۔
اداریے میں مزید نشان دہی کی گئی کہ قومی اسمبلی میں کسی حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی کے پیش نظر اس وقت مشاورت کا عمل محض رسمی دکھائی دیتا ہے، پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے اپوزیشن لیڈر کسی دوسری سیاسی جماعت سے ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اور ان کی جانب سے اس معاملے پر کوئی مضبوط یا آزاد رائے کا اظہار کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔
اداریے میں گزشتہ ماہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان دبئی میں ہونے والی ملاقات کا ذکر بھی کیا گیا، جس میں دونوں فریقیں نے انتخابات کے وقت، نگراں سیٹ اپ کے لیے ناموں اور انتخابات جیتنے کی صورت میں مستقبل کے سیٹ اپ میں اپنے حصے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ملاقات سے حکومت کے ایک اہم اتحادی اور سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن ناراض ہو گئے ہیں جہاں ان کا کہنا ہے کہ ان سے اس ملاقات کے حوالے سے مشاورت نہیں کی گئی۔
تاہم، ان کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد جمعیت علمائے اسلام(ف) کے ترجمان محمد اسلم غوری نے اس بات کی تردید کی کہ ان کی پارٹی کے سربراہ نے دبئی میں ہونے والی ملاقات پر کسی قسم کے خدشات یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ میڈیا نے فضل الرحمٰن کی صحافیوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز کی آج کی ملاقاتیں بھی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں جب پاکستان پٌیپلز پارٹی اور حال ہی میں بننے والی استحکام پاکستان پارٹی نے اہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مسلم لیگ(ن) کی ہچکچاہٹ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ان کی جماعت پنجاب میں اکیلے ہی الیکشن لڑے گی اور صوبے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے جائیں گے۔
جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی نے بھی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شریف برادران کے خلاف الیکشن لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔