• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

افغانستان ہمسایے کا حق ادا کررہا ہے نہ دوحہ معاہدے کی پاسداری کررہا ہے، خواجہ آصف

شائع July 15, 2023
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاۓ گا—تصویر: فیس بک
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاۓ گا—تصویر: فیس بک

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔

مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ 50 سے 60 لاکھ افغان شہری تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 4 سے 5 دہائیوں سے پناہ لیے ہوئے ہیں اس کے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پہ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ؕ

انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی، پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاۓ گا۔

ایک اور ٹوئٹ میں وزیردفاع نے کہا کہ ’جن لوگوں نے پی ٹی آئی کی حکومت میں اسمبلی میں آکر اراکین کو بریفنگ دی اور افغانستان سے ٹی ٹی پی کو پاکستان لا کر بسانے کے فوائد بتائے اور پھر جزاروں کو لے آئے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ لوگ آج روزانہ شہید ہونے والوں کے وارثوں کو بھی کچھ بتائیں، یہی لوگ تھے جنہوں نے 2018 میں عمران خان کا پراڈکٹ لانچ کیا اور اس پراڈکٹ نے قوم کو 9 مئی کا منحوس دن دکھایا اور پھر 4 سال یہ گارنٹی کیا کہ وطن عزیز ہر لحاظ سے تباہی کا شکار ہو جائے‘۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں واقع گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9 فوجی جوان شہید اور جوابی کارروائی میں 5 دہشت مارے گئے تھے۔

اسی روز سوئی میں فوجی آپریشنز کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 3 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے 2 دہشت گرد بھی مارے گئے تھے۔

گزشتہ روز ایک بیان میں پاک فوج نے بھی افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو کارروائیوں کے لیے آزادی اور محفوظ مقامات کی دستیابی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا

آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گی‘۔

علاوہ ازیں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی افغان حکام پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دی جائے۔

عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے گزشتہ سال نومبر میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے پاکستان نے خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کی ابتدائی ششماہی میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد 80 فیصد اضافے کے بعد 271 تک پہنچ گئی ہے جس کے نتیجے میں 389 جانیں ضائع ہوئیں اور 656 افراد زخمی ہوئے۔

خیبرپختونخوا میں 174 حملے ہوئے، جن میں 266 افراد جاں بحق اور 463 زخمی ہوئے، بلوچستان میں دہشت گردی کے 75 واقعات رپورٹ ہوئے، جن کے نتیجے میں 100 افراد جان سے گئے اور 163 زخمی ہوئے۔

سندھ میں 13 حملے ہوئے جن میں 19 جاں بحق اور 19 زخمی ہوئے جبکہ پنجاب میں ہوئے 8 حملوں کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی ویب سائٹ پر دستیاب ایک رپورٹ کے مطابق متعدد قوتیں بلوچستان میں دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہیں اور تعلیم کی کمی، بنیادی ڈھانچے کی ناقص صورتحال، کم کاروباری سرگرمیوں، خاص کر نوجوانوں میں سیاسی محرومی جیسے عوامل کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ مختلف جغرافیائی صورتحال اور انفراسٹرکچر کی ناقص ترقی کی وجہ سے بلوچستان ہمیشہ سیکیورٹی چیلنجز کا شکار رہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ تاہم عبوری افغان حکومت کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کو روکنے میں ناکامی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بدامنی کی تازہ ترین لہر کی بنیادی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں پناہ گاہوں میں آرام سے رہ رہی ہے ساتھ ہی جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور افغانستان میں آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔

عہدیدار نے نشاندہی کی کہ بلوچستان میں حالیہ حملوں کا دعویٰ کرنے والے عسکریت پسندوں کے پاس ایم 16 رائفلیں تھیں، جو امریکی فوج کے زیر استعمال تھیں۔

سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ عسکریت پسندوں نے امریکی فوج کی وردیاں بھی پہن رکھی تھیں، انہوں نے 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران چھوڑے ہوئے اسلحے اور گولہ بارود پر قبضہ کرلیا ہے۔

ان کامزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھارتی مداخلت کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے فوج بعض علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ، دہشت گردوں کا شکار کرے گی اور ان کے پاکستان میں داخلے پر پابندی لگائے گی۔

ان کے مطابق پاکستانی حکومت سے کہا جائے گا کہ وہ یہ مسئلہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ اٹھائے۔ دہشت گرد گروہوں کو لگام ڈالنے کے لیے ایرانی حکام سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔

افغان طالبان کا ردعمل

جب قطر میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین سے پاک فوج کے بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ کابل کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے لیے پرعزم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بارہا واضح کیا ہے کہ ہم کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ خطے اور افغانستان میں استحکام ضروری ہے۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ چونکہ ہم افغانستان کو علاقائی تجارت اور خوش حالی کا مرکز بنانا چاہتے ہیں، یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب خطے میں امن اور استحکام ہو۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024