’لاپتا‘ ہونے والے کسٹم اہلکاروں کو اسمگلنگ کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایک ہفتے قبل لاپتا ہونے والے پاکستان کسٹم کے دو اہلکاروں کو کراچی ایئرپورٹ سے مبینہ طور پر بدعنوانی اور اسمگلنگ میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرنے کا دعوی کر دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل نے ملزمان طارق محمود اور یاور عباس کے خلاف انسداد بدعنوانی ایکٹ 1947 کی دفعہ 5 (2) اور کسٹم ایکٹ 1969 کی دفعہ 156 (8) (89) اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
ان دونوں اہلکاروں کے علاوہ ایف آئی اے نے مقدمے میں سینئر افسران افسران کو نامزد کیا جس میں کسٹم کلکٹر ثاقب سعید جو اس وقت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات ہیں، کسٹم ہاؤس کراچی میں کلکٹر-ایکسپورٹ عثمان باجوہ، کلکٹر-انفورسمنٹ اور چھالیہ کے تاجر عامر تھیم شامل ہیں۔
جمعہ کو دونوں گرفتار افسران کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جنہوں نے انہیں 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا۔
طارق محمود اور یاور عباس کے اہل خانہ نے ان کی پراسرار گمشدگی کے حوالے سے متعلقہ تھانوں میں درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
ایف آئی آر اور عدالتی ریکارڈ میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ’ذرائع کی رپورٹ‘ کی بنیاد پر انکوائری شروع کی تھی اور 13 جولائی کو کسٹمز کے انسداد اسمگلنگ آرگنائزیشن (اے ایس او) میں تعینات ملزم طارق محمود اور یاور عباس کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ڈومیسٹک لاؤنج میں اسلام آباد جانے والی پرواز میں سوار ہونے کے لیے موجود تھے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے ایئرپورٹ پر کھڑی ان کی گاڑی کی تلاشی لی تو 54 لاکھ 37 ہزار 200 روپے، 2 ہزار 406 ڈالرز اور 6 ہزار 100 اماراتی درہم برآمد ہوئے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ گاڑی سے اتنی بڑی رقم کی برآمدگی پر دونوں ملزم کسٹم اہلکار کوئی معقول جواب دینے میں ناکام رہے بلکہ رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا کہ مذکورہ رقم ایک ’اسپیڈ منی‘ (رشوت) ہے جو انہوں نے کراچی کے علاقے کیماڑی میں واقع موچکو کسٹم چوکی سے جمع کی تھی اور اسے مختلف کسٹم حکام جیسے متعلقہ کلکٹر، ایڈیشنل ڈائریکٹر، ڈپٹی کلکٹر، سپرنٹنڈنٹ وغیرہ میں تقسیم کیا جانا تھا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’تمام کسٹم چیک پوسٹوں یعنی موچکو، مچھ گوٹھ، سہراب گوٹھ اور گھگر پھاٹک سے ماہانہ وصولی تقریباً 4 سے 5 کروڑ روپے ہے اور چھالیہ کی اسمگلنگ کی سہولت کے لیے ماہانہ 6 کروڑ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ایف آئی اے نے کہا کہ گرفتار اہلکاروں کا اسمگلروں سے تعلق تھا اور وہ منظم طریقے سے اسمگلروں کو سہولت فراہم کر رہے تھے اور ایف آئی اے تھانے میں پوچھ گچھ کے دوران دونوں کسٹم اہلکاروں نے ’منظم طریقے سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے اسمگل شدہ سامان کراچی منتقل کرنے میں اسمگلروں کو سہولت فراہم کرنے کا اعتراف کیا‘۔
ادارے کے مطابق انہوں نے کسٹم کے دیگر افسران کے ناموں کا بھی انکشاف کیا جو اسمگل شدہ سامان کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے اسمگلروں سے وصول کی جانے والی رشوت کی رقم سے مستفید ہونے والوں میں شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزمان نے بتایا کہ اے ایس او کے ایک سابق ڈائریکٹر نے ’مارچ 2023 سے اپریل 2023 کے دوران نقد اور سونے کی شکل میں تقریباً 16 کروڑ روپے کی رقم/رشوت وصول کی‘۔
ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزم طارق محمود نے انکشاف کیا کہ ایک عمران نورانی نامی شخص بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے کراچی تک سپاری کی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلا رہا ہے اور اسمگل شدہ سپاری/چھالیہ کو دوسرے صارفین/خریداروں میں تقسیم کرتا ہے اور شفیق ٹیکنیکل اسکول شیرشاہ انڈسٹریل ایریا کراچی کے قریب واقع میسرز سنی پروڈکٹس کے نام پر چھالیہ کی فیکٹری بھی چلا رہا ہے’۔
خیال رہے کہ دونوں گرفتار اہلکار 7 جولائی کو کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہوگئے تھے جس پر طارق محمود اور یاور عباس کے اہل خانہ نے ڈیفنس اور گزری تھانے میں جمع کرائی گئی درخواستوں میں حکام سے ان کے ٹھکانے کا پتا لگانے اور ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔