فلم ریویو: مشن امپاسبل ڈیڈ ریکیننگ، پارٹ ون
ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے عالمی سینما میں سال 2023ء پرانی فلموں سے جڑی یادوں کے موسم کی واپسی کا سال ہے۔ ابھی نصف برس ہوا ہے اور ہم ’انڈیاناجونز‘ اور ’مشن امپاسبل‘ جیسی دو بڑی فلم سیریز کی نئی فلمیں دیکھ چکے ہیں جبکہ گزشتہ سال 2022ء میں بھی ٹام کروز ’ٹاپ گن‘ کے سلسلے کی نئی فلم لائے جس سے ماضی کی یادیں تازہ ہوئیں۔
اس کے علاوہ مارچ میں جان وک اور کریڈ تھری، اپریل میں ایول ڈیڈ، مئی میں فاسٹ اینڈ فیوریئس، جون میں ٹرانسفارمر وغیرہ شامل ہیں۔ ابھی آدھا سال باقی ہے جس میں کئی اور معروف فلمیں ریلیز کے لیے تیار ہیں۔ ان میں ماہ ستمبر میں ایکسپینڈیبل اور دی ایکولائزر اور نومبر میں دی ہنگرگیمز شامل ہیں۔پھر اچھوتے موضوعات پر بننے والی نئی فلمیں ان کے علاوہ ہیں، یعنی یہ سال کئی حوالوں سے عالمی سینما کے لیے یادگار رہے گا۔ فی الحال مذکورہ فلم پر ایک تجزیاتی نظر ڈالتے ہیں۔ اس فلم کو ٹام کروز ہمارے لیے لے کر آئے ہیں۔
فلم سازی (پروڈکشن)
یہ فلم 2018ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’مشن امپاسبل: فال آوٹ‘ کا سیکوئل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس فلم کے بھی دو ہی مرکزی پروڈیوسر ہیں جن میں ایک فلم کا مرکزی کردار یعنی ٹام کروز اور دوسرے اس فلم کے ہدایت کار یعنی ’کرسٹوفر میک کوری‘ ہیں۔ دونوں کی کیمسٹری بہت اچھی ہے، وہ مشن امپاسبل فرنچائز کی فلموں کےعلاوہ بھی متعدد فلموں میں ایک ساتھ کام کرچکے ہیں جن میں ٹاپ گن، دی ممی، جیک ریچر اور ایج آف ٹومارو شامل ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہوگیاہے کہ یہ دونوں ساتھ کام کررہے ہیں لیکن ہالی وڈ کی اس مشن امپاسبل کی فرنچائز میں یہ اب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن چکے ہیں اور کام اب کاروباری شراکت داری میں تبدیل ہوچکا ہے۔
یہ فلم مجموعی حیثیت میں اپنے پروڈکشن ڈیزائن میں کافی اچھی ہے،کیونکہ ٹام کروز کا یہ خاصا رہاہے کہ وہ اپنی فلموں کے لیے نت نئی لوکیشنز اور اسٹنٹس کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہ دونوں مشکل کام ہیں، ان میں دماغ خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سارے پیسے اور افرادی قوت بھی صرف ہوتی ہے۔ ان دونوں شخصیات کی پروڈکشن کمپنیوں ’ٹی سی پروڈکشن‘ اور ’اسکائی ڈانس‘ کی راہنمائی میں فلم کی تقسیم کاری کا کام ’پیراماونٹ پکچرز‘ نے کیا ہے۔
'مشن امپاسبل' میں ایشیا کی شمولیت
کچھ برسوں سے انہوں نے ایشیا کو بھی اپنے مدار میں لے لیا ہے جس کی وجہ سے اکثر فلموں کی عکس بندی سے لے کر اداکاروں اور موضوعات تک ہمیں ایشیا دکھائی دینے لگا ہے ساتھ ہی فلموں کی ہندی ڈبنگ اب پاکستانی فلم بینوں کے لیے بھی سینما ہالز میں سہولت کا کام دینے لگی ہے۔ یہ بھی مثبت بات ہے کہ آفیشل طور پر اس بات کا اہتمام کیا جانے لگا ہے۔
اس فلم کی بہت ساری عکس بندی ’ابوظبی‘ میں ہوئی ہے جہاں عرب صحرا ’لیوا‘ اور ’مڈفیلڈ ٹرمینل ایئرپورٹ‘ جیسے مقامات شامل ہیں۔ اس فلم کو ابوظبی فلم کمیشن کے علاوہ مقامی پروڈکشن کمپنیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ فلم کی یہ عکس بندی 2021ء میں ہوئی تھی جہاں مشن امپاسبل کی ٹیم کورونا آنے سے پہلے دو ہفتے کام کرتی رہی۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ٹام کروز اپنی کئی فلموں کی عکس بندی اس ملک میں کرتے رہے ہیں۔ ان فلموں میں مشن امپاسبل سیریز کی ’فال آوٹ‘ اور ’گھوسٹ پروٹوکول‘ شامل ہیں۔
یہ فلم یورپ کے ملک اٹلی میں شوٹ ہونے کے علاوہ آسٹریا کے مضافاتی علاقوں میں بھی عکس بند کی گئی ہے۔ فلم کا سب سے خطرناک اسٹنٹ، جب ٹام کروز پہاڑ سے نیچے ٹرین پر کودتے ہیں، آسٹریا کے پہاڑوں پر ہی فلمایا گیا ہے۔ اس فلم کے پہلے حصے کا اختتام بھی یہی ہوا ہے اور شنید یہ ہے کہ فلم کا دوسرا حصہ یہیں سے شروع کیا جائے گا، جس میں یہ کردار فضا میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔ اس فلم کے لیے برطانیہ، فرانس اور ناروے میں بھی کئی مقامات پر عکس بندی کا اہتمام کیاگیاہے۔
مہنگی ترین مشن امپاسبل فلم
یہ فلم پونے تین گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل ہے جبکہ اس کو پہلی مرتبہ رواں برس 19جون کو اٹلی میں نمائش کے لیے پیش کیاگیا پھر 12 جولائی کو ریاست ہائے متحدہ امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ریلیز کردیاگیا۔ پاکستان میں یہ فلم کل 14 جولائی کو نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم کا بجٹ 291 ملین ڈالرز ہے جبکہ اس نے مجموعی طور پر پوری دنیا میں باکس آفس کی کمائی سے تقریباً 40 فیصد کما لیا ہے اگر یہ اسی رفتارسے چلتی رہی تو شاید ایک ہفتے میں یہ اپنی لاگت پوری کرلے گی اور اس کے بعد جو کچھ آئے گا وہ منافع ہوگا۔ یہ ٹام کروزکے کیرئیر کی سب سے مہنگی فلم ہے۔
پروڈکشن کے دیگر پہلو
اس فلم کا سب سے مضبوط پہلو پروڈکشن ڈیزائن ہی ہے جس میں وی ایف ایکس کا شاندار استعمال، عمدہ موسیقی، بہترین سینماٹوگرافی، ایڈیٹنگ اور لائٹنگ سمیت دیگر پہلوؤں پر اچھی طرح کام کیا گیا ہے۔ وہ فلم بین جو اس مشن امپاسبل فرنچائز کے عادی ہیں انہیں تو شاید یہ اچھی لگے مگرپروڈکشن کے علاوہ دیگر شعبوں میں اس فلم نے مایوس کیا ہے۔ اتنے طویل دورانیے کی فلم کا ایک حصہ مکمل ہواہے، دوسرا حصہ اگلے سال جولائی 2024ء میں پیش کیا جائے گا جبکہ اس فلم کے پہلے حصے کو دیکھ کر ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ اگلا حصہ بنایا جاتا۔ اسے الگ ایک فلم کے طور پر بھی پیش کیا جاسکتا تھا لیکن شاید یہ مارکیٹنگ کی حکمت عملی ہے کہ فلم بین کو قبل ازوقت ذہنی طور پر اگلی فلم دیکھنے کے لیے تیار کیا جائے۔
بہرحال دیکھتے ہیں تب کیا ہوتا ہے فی الحال کمائی کے لحاظ سے یہ فلم مقبولیت کی نئی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے لیکن مجموعی کہانی کے تصور، تخلیقی ٹریٹمنٹ اور کرداروں کے اعتبار سے یہ بہت ساری سیڑھیاں اتر بھی رہی ہے کیونکہ یہ فلم تخلیقی اعتبار سے کمزور دکھائی دی جس کو پروڈکشن کی چکاچوند نے اپنے اندر ڈھانپ لیا ہے۔
ہدایت کاری (ڈائریکشن)
اس فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر میک کوری ہیں۔ انہوں نے ہالی وڈ میں اپنے کیرئیر کی شروعات اسکرین پلے رائٹر سے کی تھی۔ ان کی لکھی ہوئی ابتدائی دور کی سب سے مشہور فلم ’دی ٹورسٹ‘ ہے اور ’جیک ریچر‘ جیسی مقبول فلموں سے ہدایت کاری کی باقاعدہ ابتدا کی۔ اس کے بعد ٹام کروز اور ان کا نام ایک جوڑی میں تبدیل ہوگیا جس کی انتہا مشن امپاسبل فرنچائز ہے۔وہ اسکرین پلے رائٹنگ میں آسکر ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں لیکن ہدایت کاری میں ابھی ان کے ہاتھ صرف نامزدگیاں آئی ہیں۔
ان کی فلمی ڈائریکشن کی سب سے خراب بات یہ ہے کہ وہ اپنی فلموں کے فریم دھراتے ہیں یعنی صحراوں کی عکس بندی، یا پھر پہاڑی علاقوں کے مناظر اور اس سے بھی بڑھ کر اونچی اونچی مشہور عمارتوں کے اردگرد گھومتے شاٹس، اس طرح کے حربوں سے فلم بین متاثر ہوتے ہیں، مگر باربار کریں گے تو وہ بوریت کاشکار ہوں گے۔ اس بار پونے تین گھنٹے کی فلم میں ان مناظر نے کئی بار اکتاہٹ پیدا کی۔
پھر ہدایت کار نے ٹام کروز کی فلموں میں یہ فارمولا انداز کی فلم میکنگ کا تجربہ بھی کئی بار کیا ہے اور شاید ان کی فلموں کے لیے کہانی کی بجائے اسٹنٹس کو موضوع بحث بنانے کا مشورہ بھی انہی کا ہوکیونکہ ٹام کروز مشن امپاسبل فرنچائز کے علاوہ اپنی دیگر فلموں میں اس فارمولے پر کاربند دکھائی نہیں دیتے۔ یہ واحد فلم سیریز ہے جس میں کہانی سے زیادہ اس کے بکھیڑوں پر بات کی جاتی ہے۔
اداکاری (ایکٹنگ)
اداکاری میں کئی درجے ہوتے ہیں جن کے ذریعے ایک اداکار اپنے فن کا اظہار کرتا ہے۔ اس فلم میں تمام اداکاروں نے اپنی مطلوبہ فنی ضروریات کو بخوبی اداکیا ہے لیکن اگر بات کی جائے کسی ایسی اداکاری کی جس کے ذریعے فلم بین سحر میں جکڑے جائیں تو سوائے ٹام کروز کے کوئی بھی اس نہج تک پہنچتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ بھی اپنی گزشتہ مشن امپاسبل فلموں کے تناظر میں اس فلم میں ہلکے رہے، بلکہ اس فلم میں امریکی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی اداکاری انتہائی بری ہے۔
ان کے علاوہ ولن کا مرکزی کردار نبھانے والے اداکار ایسائی مورالس کافی ٹھنڈے محسوس ہوئے، فلم میں یہ ان کا بدمعاشی کرنے کا طے شدہ انداز تھا یا پھر وہ تھے ہی ٹھنڈے یہ فرق پتا نہیں چل سکا لیکن مجموعی طور پر اداکاری کا شعبہ یکسانیت اور گلیمر کے زیر اثر رہا اور اداکاری کے لیے ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اچھے اداکارہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، بھلے شکل کیسی بھی ہو اور چاہے جیسا بھی لباس زیب تن کیا ہو۔ اچھی اداکاری کے سامنے سب ہیچ ہے۔ برطانوی اداکارہ وینیسا کربی اور فرانسیسی اداکارہ پوم کلیمینٹیف نے بھی متاثر کن اداکاری سے مجموعی منظرنامے کو تقویت بخشی۔
اسکرین پلے (اسکرپٹ رائٹنگ)
اس فلم کا سب سے اہم حصہ یہ ہے، جس پر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مشن امپاسبل کی کہانی کا مرکزی خیال، امریکی اسکرین پلے رائٹر بروس گیلر کاہے، اس فرنچائز کی تمام فلمیں اسی کہانی کے تناظر میں بنی ہیں جن کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے متوازن ایک خیالی خفیہ ایجنسی آئی ایم ایف ہے، یعنی ’امپاسبل مشن فورس‘ جو امریکا کی سب سے لائق ایجنسی ہے۔ یہ دنیا بھر میں امریکی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کہانی کو مزید سمجھنے کے لیے اس کی گزشتہ فلمیں دیکھنی ہوں گی پھر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کہانی کس طرح آگے بڑھتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے۔
مذکورہ اسکرین پلے کو ایرک جینڈریسن نے فلم کے ہدایت کار کرسٹوفر میک کوری کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔کہانی بالکل روایتی ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اس فلم میں کہانی نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، بس تخیل پر مبنی کچھ دھندلا سا ہیولہ نما تصور ہے، ایک منفی طاقت کا، جو مشینی ہے اور وہ سب کچھ اپنے قبضے میں کرنا چاہتی ہے اور انسان چاہتے ہیں کہ وہ ان کے قبضے میں آجائے۔ اس قبضے کی حتمی شکل ایک چابی ہے جو اس انجانی مشین کو کنٹرول کرے گی اور جس کے پاس اس کا کنٹرول ہوگا وہی دنیا پر راج کرے گا۔ یعنی وہی گھسا پٹا فارمولا کہ دنیا کی بقا اب اسی چابی پر ہے جو درست ہاتھوں میں ہونی چاہیے ورنہ سب ختم ہوجائے گا۔ باقی کی فرسودہ کہانی سمجھنے کے لیے آپ فلم دیکھ سکتے ہیں۔
حیرت انگیز طورپر ہالی وڈ میں اب کئی چیزیں لگاتار ہونے لگی ہیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب ہالی وڈ میں کمرشل سوچ کریٹیو سوچ پر بہت زیادہ غالب آنے لگی ہے۔ یہ فلم اس سال کی دوسری بڑی فلم ہے جس کا اختتام ٹرین کے حادثے پر ہوا اس سے پہلے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’انڈیانا جونز‘ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ گزشتہ برس ریلیز ہونے والی ایک بڑی فلم ’بلٹ ٹرین‘ بھی اسی انجام کا شکار ہوئی اور حالیہ کئی فلموں کے نام گنوا سکتا ہوں جن کا کلائمکس ٹرین کاحادثہ ہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہالی وڈ میں بھی لوگوں نے ہماری فلمی صنعت کے فلم سازوں کی طرح لکھنا پڑھنا بند کردیا ہے اور لگے لپٹے روایتی ہتھکنڈوں کے مطابق فلمیں بنا رہے ہیں۔ اتنا پیسہ خرچ کرکے ٹریش موضوعات پر فلمیں بنانا اور اس میں کشش پیدا کرنے کے لیے کبھی مصنوعی ذہانت کا استعمال، کبھی خلا میں شوٹنگ کرنے کی بات تو کبھی خطرناک اسٹنٹس۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ فلم ایک کہانی بیان کرتی ہے، یہ بنیادی بات ہالی وڈ کی فلموں میں سے اب ختم ہوتی جارہی ہے، مسالے پورے ہیں، مگر ذائقہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیکا پڑ رہاہے۔ موجودہ فلم کو اتنا کھینچ تان کر لمبا کردیا گیا ہے کہ صرف اس کے اسکرپٹ کی غلطیوں اور اکتاہٹ پر ایک الگ مضمون لکھا جاسکتا ہے۔
ایک چابی کی تلاش اس فلم کا مرکزی خیال ہے جس کے اردگرد کردار پوری دنیا میں اندھا دھند بھاگتے پھر رہے ہیں۔ مجھے وہ لطیفہ یاد آگیا کہ ایک شخص بھاگتا جارہا تھا، اس کو دیکھا دیکھی دوسرے بھی بھاگنے لگے، بھاگتے بھاگتے ایک نے دوسرے سے پوچھا ہم سب کیوں بھاگ رہے ہیں تو دوسرے نے جواب دیا پتا نہیں میں نے ان کو بھاگتے دیکھا تو میں بھی بھاگنے لگا اس فلم کی کہانی کا خلاصہ بھی یہی ہے. پونے تین گھنٹے فلم میں سب بھاگ رہے ہیں۔ اب جہاں تک بات ہے کہ ٹرین کی برق رفتاری دیکھنی ہو یا کاروں کی ریس، اس کے لیے اس فلم سے بہتر کئی اور آپشنز ہیں، بھلا اس سرگرمی کے لیے فلم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
حرف آخر
کئی دہائیوں سے ہالی وڈ عالمی سینما میں فلم بینوں پر غالب ہے اس لیے ہم مرعوب رہتے ہیں اور رہی سہی کسر عالمی اور مقامی میڈیا فلم کی ریلیز سے پہلے ان کی تعریفیں کرنے میں گزار دیتا ہے۔ میں نے کئی لوگوں کو کپکپاتے ہوئے یہ کہتے سنا کہ ’مشن امپاسبل کے ساتھ کوئی فلم نہیں لگنی چاہیے، یہ سب کو کھا جائے گی‘۔ اب ہالی وڈ کی اجارہ داری، ٹام کروز کی مقبولیت اور پیسہ، دنیا بھر میں اسکرینز پر قبضہ، اس سب اہتمام کے ساتھ تو کوئی فلم بھی چھاسکتی ہے۔ مگر وہ کمرشل ہونے کے علاوہ بھی کچھ ہے،کیا اس میں کچھ تخلیقی اپچ بھی ہے؟ تو اس فلم کے لیے میرا جواب ہے کہ ’نہیں‘ یہ فلم صرف ایک مسالہ فلم ہے اور بس۔ صرف اس میں ایک آئٹم نمبر کی کمی ہے جو ہمارے پڑوسی ملک والے اپنی فلموں میں ڈالتے ہیں یا ہمارے فلم ساز بھی اکثر اس سہولت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ اسٹریمنگ پورٹلز پر پوری دنیا میں اس وقت جنوبی کوریا کی فلمیں چھائی ہوئی ہیں کیونکہ انہیں گلیمر اور کہانی دونوں کو توازن میں رکھنا آتا ہے۔ اسی طرح ہسپانوی سینما اور دیگر کچھ یورپی ممالک کی فلمیں (برطانیہ کو چھوڑ کر) اپنے معیار میں بہت بہتری لارہی ہیں۔ چینی فلمی صعنت بھی دھیمی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ او ٹی ٹی پر تو جنوبی کوریا کافی حد تک ہالی وڈ کی چھٹائی کرچکا ہے، اگر یہ ہالی وڈ والے اسی طرح کی فلمیں بناتے رہے، تو سینما ہالز میں بھی ایک دن، ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، یہ منظر اب دکھائی دینے لگا ہے۔
پھر ان کے پاس شاید کہانیوں کی قلت ہوگئی ہے جو ری میک اور سیکوئل کے نام پر پرانی فلمیں دوبارہ سے بنانے کے خبط میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ مگر اب یہ زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا کا سینما دیکھنے اور اس کا موازنہ کرنے کے لیے آج کے فلم بین کے پاس اسٹریمنگ پورٹلز موجود ہیں۔ آج نہیں تو کل وہ اپنا فیصلہ کریں گے۔ اس سے پہلے ہالی وڈ کو اپنی روش بدلنا ہوگی ورنہ صرف فلم کا نام ’ڈیڈ ریکیننگ‘ ہونے کی بجائے کہیں ان کی فلمی صنعت کا نام ہی ’ڈیڈ ریکیننگ‘ نہ ہو جائے۔ ہالی وڈ کی کتنی ہی اچھی فلمیں ہیں جو سینما ہالز تک پہنچ ہی نہیں پاتیں کیونکہ یہ بڑے بڑے کمرشل مگرمچھ ان کو آگے آنے کے لیے راستہ ہی نہیں دیتے۔
مشن امپاسبل فرنچائز اور ٹام کروز کے لیے مفت مشورہ ہے کہ اس سلسلے کی 8 ویں فلم کو آخری قرار دے کر اس کو بھرے میلے میں ہی ختم کردیں، ایسانہ ہوپھر خالی کرسیوں کی موجودگی میں اس فلم سیریز کو رخصت ہونا پڑے۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔