چیئرمین پی ٹی آئی کے نکاح کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری
اسلام آباد کے سیشن جج اعظم خان نے سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نکاح کا کیس ناقابل سماعت قرار دینے کے سول جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف سول جج کی عدالت میں نجی شکایت دائر ہوئی تھی۔
جس پر 13 مئی کو فیصلہ سناتے ہوئے سول جج نے نکاح کی تقریب لاہور میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی سربراہ کے خلاف غیر شرعی نکاح کیس کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی تھی۔
عدالت نے کہا کہ سول جج کے فیصلے میں کہا گیا کہ نکاح کی تقریب لاہور میں منعقد ہونے کے باعث اسلام آباد کی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔
بعد ازاں درخواست گزار محمد حنیف نے سول جج کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ نکاح کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی بنی گالا میں رہائش پذیر رہے۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق بنی گالا میں رہائش پذیر ہونے کے باعث اس کیس میں اسلام آباد کی عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق سول جج نے فیصلہ دیتے ہوئے قانونی نکات کو مدنظر نہیں رکھا اور سیکشن 179 کے تحت جہاں واقعہ ہوا یا اس کے اثرات آئے، دونوں جگہوں پر کیس قابل قبول ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے درخواست کی مخالفت کی اور سول جج کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
تاہم درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سول جج نے ان کے دلائل تفصیل سے نہیں سنے، سول جج نے سیکشن 179 کے تحت درخواست کو نہیں سنا اور اس پر جاری کردہ فیصلہ بھی غیر واضح تھا۔
عدالت نے کہا کہ سول جج کا فیصلہ اور فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد معلوم ہواکہ کیس کو تفصیلی نہیں سنا گیا۔
چنانچہ درخواست گزار کی اپیل منظور کی جاتی ہے اور سول جج کا 13 مئی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مذکورہ معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ بنی گالا کو واپس بھجوایا جاتا ہے، قانونی نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے جوڈیشل مجسٹریٹ درخواست پر فیصلہ کریں۔
پس منظر
واضح رہے کہ 5 اپریل کو عمران خان اور ان کی اہلیہ پر عدت کے دوران نکاح کے الزام پر دونوں کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
شہری محمد حنیف نے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں عمران خان، بشریٰ بی بی اور ریاست کو فریق بنایا گیا۔
شہری نے دونوں کے خلاف سیکشن 496 کے تحت کارروائی کے لیے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ بشریٰ بی بی نے عدت پوری کیے بغیر نکاح کیا جو غیرقانونی ہے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کے نکاح کی کاپی بھی شکایت کے ساتھ منسلک ہے۔
بعد ازاں گزشتہ ماہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف عدت میں نکاح کے کیس کی جلد سماعت کی درخواست منظور کرلی تھی۔
12 اپریل کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف دورانِ عدت نکاح کے کیس میں نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اسلام آباد کچہری پہنچ کر اپنا بیان عدالت میں قلمبند کروا دیا تھا۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ بشریٰ بی بی کے ساتھ پہلا نکاح اس لیے ضروری تھا کیونکہ پیش گوئی تھی کہ اگر میں سال 2018 کے پہلے دن بشریٰ بی بی سے نکاح کروں گا تو وزیر اعظم بن جاؤں گا۔
4 مئی کو عمران خان کے بطور وزیراعظم سابق معاون خصوصی عون چوہدری نے بھی مذکورہ کیس میں اپنا بیان ریکارڈ کروادیا تھا، جج کے سامنے اپنی گواہی میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہدایت پر اپنی دوسری اہلیہ ریحام خان کو طلاق دی۔
عون چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ جب مفتی سعید نے عمران خان سے طلاق کے بارے میں پوچھا تو موصوف نے کہا کہ وہ طلاق نامہ بعد میں دکھائیں گے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے سابق مشیر نے کہا کہ بعد میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ 17 یا 18 فروری کو عدت کی مدت ختم ہونے سے پہلے نکاح ہو گیا تھا۔
عون چوہدری کے مطابق عمران خان نے انہیں بشریٰ بی بی سے شادی کی وجہ بتائی تھی کہ انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر میری شادی 2018 کے پہلے دن ہوئی تو میں وزیراعظم بنوں گا۔
فاضل جج نے عون چوہدری کا بیان قلمبند کرنے کے بعد سماعت 10 مئی تک ملتوی کر دی تھی۔
بعدازاں 13 مئی کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سابق وزیر اعظم کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی تھی۔