مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ ماڈل نے امریکی میڈیکل امتحان پاس کرلیا
گوگل کے مصنوعی ذہانت پر مبنی میڈیکل چیٹ بوٹ نے امریکی میڈیکل لائسنسنگ کا امتحان پاس کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا جاچکا ہے تاہم صحت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اس ٹیکنالوجی نے بڑے پیمانے پر پیش رفت ظاہر کی ہے، اس شعبے میں مصنوعی ذہانت مخصوص میڈیکل اسکین کے ساتھ ساتھ انسانوں کے تخلیق کردہ مواد کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔
گوگل نے طب سے متعلق سوالات کے جوابات کے لیے میڈ پام (Med-PaLM) نامی اے آئی ٹول متعارف کرنے کا اعلان کیا تھا جسے اب تک عوامی سطح پر متعارف نہیں کروایا گیا۔
امریکی ٹیک کمپنی میڈ پام پہلا لینگویج ماڈل ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کیا گیا ہے جو انسانوں کے تخلیق کردہ مواد پر تربیت دی گئی ہے، اس ماڈل نے امریکی میڈیکل لائسنسنگ امتحان (یو ایس ایم ایل ای) پاس کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ اس امتحان کو پاس کرنے کا تناسب تقریباً 60 فیصد ہے۔
فروری میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چیٹ جی پی ٹی نے بھی یہ امتحان پاس کیا ہے۔
12 جولائی کو نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والے جائزہ تحقیق کے مطابق گوگل کے محققین کا کہنا ہے کہ میڈپام نے امریکی میڈیکل لائسنسنگ امتحان طرز کے متعدد سوالات پر 67.6فیصد حاصل کیے ہیں۔
تحقیق کے مطابق میڈپام حوصلہ افزا کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے لیکن اس کی کارکردگی ڈاکٹرز کے مقابلے کم ہے۔
گوگل کے ایک سائنسدان اور نئی تحقیق کے مصنف کرن سنگھل نے کہا کہ ٹیم نے اپنے ماڈل کے نئے ورژن کو جانچنے کے لیے بینچ مارک کا استعمال کیا ہے جس کے ’انتہائی دلچسپ‘ نتائج ہیں۔
میڈپام 2 نے امریکی میڈیکل لائسنسنگ امتحان میں 86.5 فیصد حاصل کیے ہیں، جو پچھلے ورژن کے مقابلے تقریباً 20فیصد سے زائد ہے۔
دوسری جانب برطانیہ کی یونیورسٹی باتھ کے کمپیوٹر سائنس دان جیمز ڈیوین پورٹ (جو اس تحقیق میں شامل نہیں ہیں) کا کہنا ہے کہ اے آئی سے چلنے والے ان میڈیکل چیٹ بوٹس میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ طبی سوالات کے جوابات دینا اور طبی شعبے میں اصل پرفارم کرنا (تشخیص اور علاج) دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی میں اے آئی کے ماہر انتھونی کوہن کہتے ہیں کہ شماریات سے متعلق نوعیت کے باعث اس طرح کے بڑے لینگویج ماڈلز کے لیے وہم اور تصورات ہمیشہ ایک مسئلہ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’لہذا ان ماڈلز کے جوابات حتمی فیصلہ نہیں سمجھنا چاہیے تاہم ان سے ہم معاون حاصل کرسکتے ہیں۔