اسمبلیاں 13 اگست کے بجائے 11 اگست کو تحلیل ہوسکتی ہیں، راناثنااللہ
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے اگر سہولت درکار ہوگی تو اسمبلیاں 13اگست کے بجائے 11 اگست کو تحلیل ہوسکتی ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’باتوں کو خواہ مخواہ توڑا مروڑا جا رہا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کا جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو واضح مؤقف تھا کہ ہمیں انتخابات کی طرف جانا چاہیے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دوسرے اتحادیوں کے مؤقف کے ساتھ متفق ہو کر راضی ہوئے کہ ٹھیک ہے ملک کو پہلے ڈیفالٹ کی صورت حال سے محفوظ کیاجائے اور حکومت جاری رکھی جائے‘۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ ’اب بھی پارٹی اور پارٹی قائد نواز شریف اس بات پر پوری طرح واضح ہیں کہ اسمبلیاں وقت پر تحلیل ہونی چاہئیں اور وقت کے مطابق انتخابات ہونے چاہئیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کو سہولت اور وقت دینے کے لیے اگر یہ اسمبلیاں 13 اگست کے بجائے 11 اگست کو معطل ہوجائیں گی تو انہیں 90 روز مل جائیں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں 90 دن کے اندر ہی انتخابات کروانے ہیں بلکہ انتخابات 64 دنوں یا 74 دنوں میں بھی ہوسکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’شیڈول 54 دنوں کا ہے تو پھر وہ جب چاہیں، ایک ہفتہ یا دس دن بعد چاہیں وہ وقت دے سکتے ہیں، اس مقصد کے لیے اگر اس سوچ کے لیے اگر تاریخ آگے بڑھی تو ہوسکتا ہے 13 کے بجائے 11 اگست کو اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں لیکن اسمبلیاں اپنا وقت پورا کرنے کے بعد تحلیل ہوں گی‘۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ وقت پر اسمبلیاں تحلیل ہوں گی اور ’نگران سیٹ اپ آئے گا اور انتخابات آئین کے مطابق ہوں گے‘۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ کوئی 20 یا 30 دن سے کوئی خاص فرق پڑے گا، ہم نے معاملات آئینی تقاضوں کے مطابق پورے کیے ہیں اور کر رہے ہیں، اگر کسی معاملے کا انتظام 60 دن میں نہیں ہوسکتا ہے تو وہ 80 یا 85 دنوں میں کہاں ہوگا‘۔
دبئی میں نواز شریف اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی ملاقات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ وہاں پر ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا تو کس کو کیا پتا ہوتا، آصف زرداری اور بلاول بھٹو وہاں موجود تھے اور ایک معمول کی ملاقات ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سیاست دان بیٹھتے ہیں تو اس وقت کے معاملات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے لیکن وہاں نہ تو کوئی شیڈول ملاقات تھی اور نہ کوئی ایسے فیصلے ہوئے ہیں اور انتخابات کے حوالے سے مکمل وضاحت ہے کہ انتخابات آئین کے مطابق ہوں گے۔