انسداد دہشتگردی عدالت: 9 مئی سے متعلق 5 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کو شامل تفتیش ہونے کی ہدایت
لاہور کی انسداد دہشت گری عدالت نے 9 مئی کو ملک بھر پُرتشدد مظاہروں سے متعلق 5 مقدمات میں چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے عبوری ضمانتوں میں 21 جولائی تک توسیع کر دی۔
یہ مقدمات جناح ہاؤس حملہ، عسکری ٹاور، شادمان ٹاؤن تھانے پر حملے، ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے دفتر میں توڑ پھوڑ اور توشہ خانہ میں عمران کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاج کے دوران کنٹینر کو نذر آتش کرنے سے متعلق ہیں۔
آج کی سماعت میں عمران خان اپنے وکیل انتظار پنجوتھا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ حکومت پنجاب کی طرف سے خواجہ وسیم عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔
جج اعجاز بٹر نے چیئرمین تحریک انصاف کے شامل تفتیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ہوئے استفسار کیا کہ آپ ابھی تک تفتیش میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟
چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ میں روز عدالتوں میں پیش ہوتا ہوں، اس لیے شامل تفتیش نہیں ہو سکا، جس پر جج اعجاز بٹر نے کہا کہ مجھے لسٹ دیں آپ کب کب عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ میں ابھی شامل تفتیش ہونے کے لیے تیار ہوں۔
جج اعجاز بٹر نے ریمارکس دیے کہ قانون پر عملدرآمد ضروری ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ یہ زمان پارک آجائیں میں تفتیش میں شامل ہو جاؤں گا، جس پر جج اعجاز بٹر کا کہنا تھا کہ یہ آپ کا اور پولیس کا مسئلہ ہے، آپ آپس میں طے کر لیں۔
سرکاری وکیل خواجہ وسیم عباسی نے کہا کہ آج 4 بجے چیئرمین تحریک انصاف شامل تفتیش ہوں، جس پر پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کہا کہ 4 بجے میں مصروف ہوں، آج آئی ایم ایف کا وفد مجھ سے ملنے آرہا ہے۔
جج اعجاز بٹر نے عمران خان کو ہدایت کی کہ بہتر یہی ہے آپ پولیس ہیڈ آفس جائیں اور 14 جولائی تک آپ پانچوں مقدمات میں شامل تفتیش ہوں۔
بعد ازاں عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی عبوری ضمانتوں میں 21 جولائی تک توسیع کر دی۔
خیال رہے کہ 10 مئی کو لاہور پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، شاہ محمود قریشی، مراد سعید، علی امین گنڈا پور اور دیگر اعلیٰ قیادت کے خلاف لاہور کینٹ میں جناح ہاؤس (کور کمانڈر ہاؤس) پر حملہ کرنے، 15 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا قیمتی سامان لوٹنے اور اسے آگ لگانے کے لیے انسداد دہشت گردی ایکٹ اور 20 دیگر گھناؤنے جرائم کے تحت سرور روڈ تھانے میں مقدمہ درج کیا تھا۔
شکایت کنندہ ڈی ایس پی اشفاق رانا نے ایف آئی آر میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان، شاہ محمود قریشی، کئی دیگر سینئر رہنماؤں اور 1500 کارکنوں کو نامزد کیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈان کی رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس کے سربراہ نے علاقائی پولیس افسران (آر پی اوز) کو 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں ایف آئی آرز میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کا اضافہ کرتے ہوئے صوبے بھر میں درج تمام مقدمات میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو نامزد کرنے کی ہدایت کردی تھی۔
انسداد دہشت گردی قانون اور دیگر الزامات کے تحت سب سے زیادہ 14 ایف آئی آرز لاہور میں، 13 راولپنڈی ریجن، 5 فیصل آباد ریجن میں جبکہ ملتان، سرگودھا اور میانوالی اضلاع میں 4، 4 مقدمات درج کیے گئے تھے۔
رابطہ کرنے پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے تصدیق کی کہ 9 مئی کے مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نامزد کرنے کے لیے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کو شامل کیا جارہا ہے۔
توشہ خانہ کیس: چیئرمین پی ٹی آئی کی آج پھر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور
قبل ازیں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی آج پھر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے کی، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل گوہر علی خان اور الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سیشن عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی آج حاضری سے استثنٰی کی درخواست دائر کر دی گئی۔
وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے چار وکلا ہیں، وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
عمران خان کے وکیل گوہر علی نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل صرف پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں۔
وکیل گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے سینئر وکیل خواجہ حارث ہیں، وکیل گوہر علی خان نے سماعت 10 جولائی تک ملتوی کرنے کی استدعا کردی۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، ان کے وکلا کی نیت ہی دلائل دینے کی نہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ خواجہ حارث کی کوئی عدالتی مصروفیات نہیں۔
سیشن جج نے کل خواجہ حارث کو عدالت میں پیش ہونے کی دوبارہ ہدایات جاری کر دیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے توشہ خانہ کیس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں آج ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ 4 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں اس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے توشہ خانہ کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
توشہ خانہ کیس
گزشتہ برس اگست میں حکمران اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔
آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔
عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم ادا کر کے خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔
بعد ازاں 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔
فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ 10 مئی کو توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم پر فرد جرم بھی عائد کردی گئی تھی۔