9 مئی سے متعلق تمام مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نامزد کرنے کی ہدایت
پنجاب پولیس کے سربراہ نے علاقائی پولیس افسران (آر پی اوز) کو 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں ایف آئی آرز میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کا اضافہ کرتے ہوئے صوبے بھر میں درج تمام مقدمات میں پی ٹی آئی کے سربراہ کو نامزد کرنے کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ہدایت ان تمام مقدمات سے متعلق تھی جو مبینہ طور پر فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث پی ٹی آئی کے رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے سیکشن 7 کے تحت درج کیے گئے تھے۔
انسداد دہشت گردی قانون اور دیگر الزامات کے تحت سب سے زیادہ 14 ایف آئی آرز لاہور میں، 13 راولپنڈی ریجن، 5 فیصل آباد ریجن میں جبکہ ملتان، سرگودھا اور میانوالی اضلاع میں 4، 4 مقدمات درج کیے گئے تھے۔
رابطہ کرنے پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے تصدیق کی کہ 9 مئی کے مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی کو نامزد کرنے کے لیے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کو شامل کیا جارہا ہے۔
سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) پنجاب کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ آئی جی کی ہدایات نے ایک تنازع کھڑا کر دیا ہے کیونکہ بہت سے سینئر پولیس افسران نے اسے ایک فضول حرکت کے طور پر دیکھا جو ایف آئی آر کے اندراج کے تقریباً دو ماہ بعد کی جا رہی ہے، جن میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 148 اور 149 پہلے سے موجود ہیں جو تقریباً ایک جیسے جرائم سے متعلق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی جی نے یہ ہدایات پنجاب پراسیکیوشن سیکریٹری سے تفصیلی میٹنگ کے بعد جاری کیں۔
عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ دراصل پراسیکیوشن سیکریٹری نے ہی اس اسکیم کی تجویز پیش کی تھی اور پنجاب پولیس کے سربراہ سے تحریری طور پر کہا تھا کہ وہ تمام مقدمات میں عمران خان کو نامزد کرنے کے لیے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 کا اطلاق کریں۔
اس کے بعد نگران حکومت پنجاب کی جانب سے 9 مئی کے مقدمات کے تناظر میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (جے آئی ٹیز) کو متعلقہ اضلاع کے پراسیکیوٹرز سے ملاقاتیں کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ اس کی تعمیل کو یقینی بنایا جا سکے۔
عہدیدار نے کہا کہ جیسے ہی یہ حکم آر پی اوز کے دفاتر تک پہنچا، اس نے بہت سے پولیس افسران کو چونکا دیا۔
ملاقاتوں کے دوران ان میں سے بہت سے لوگوں نے اعلیٰ حکام کو متنبہ کیا کہ انہیں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی نامزدگی سے قبل ’مشترکہ ارادہ‘ ثابت کرنے کے لیے عدالتوں میں زبردست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ اس وقت جائے وقوع پر بذات خود موجود نہیں تھے جب 9 مئی کو یہ حملے کیے گئے۔
البتہ کچھ افسران نے آئی جی کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ زیر بحث سیکشن کو شامل کرتے ہوئے کسی بھی شخص کو نامزد کرنے کے لیے اس کی موجودگی لازمی شرط نہیں ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ڈان کو بتایا کہ کسی بھی پولیس افسر نے حکم نامے پر عمل درآمد کی مخالفت یا ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کی، یہ پولیس کا ڈومین ہے کہ مقدمات کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اور دفعہ 34 کو تحقیقات کے کسی بھی مرحلے میں شامل یا حذف کیا جا سکتا ہے۔
مشترکہ ارادہ
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 34 میں لکھا ہے کہ ’جب کئی افراد مل کر کوئی مجرمانہ سرگرمی کرتے ہیں تو سب کی مشترکہ نیت کو آگے بڑھاتے ہوئے ہر ایک فرد اس فعل کے لیے اسی طرح ذمہ دار ہوتا ہے جیسے کہ اس نے اکیلے کیا ہو‘۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے وکیل عمیس چوہدری نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشترکہ ارادے کے لیے پہلے سے ترتیب شدہ منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے اور ذہنوں میں پہلے سے مطابقت ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت ’مشترکہ ارادہ‘ ایک ضروری جزو رہا ہے اس لیے پولیس کو مشتبہ شخص کے خلاف جرم کا اطلاق کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جرم کرنے سے پہلے اس کی مشترکہ نیت تھی، کیونکہ محض الزامات ہی اسے عدالت میں پیش کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ راولپنڈی ریجن نے مبینہ طور پر فوجی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے اے ٹی اے کے سیکشن 7 اور دیگر دفعات کے تحت درج کی گئی تمام ایف آئی آرز میں پی پی سی کی دفعہ 34 شامل کرکے پی ٹی آئی چیئرمین کو نامزد کیا ہے۔
تاہم لاہور، گوجرانوالہ اور ملتان علاقوں میں پولیس اس حکم پر عمل کرنے سے ہچکچا رہی تھی اور استغاثہ کے ماہرین سے مشورہ کر رہی تھی تاکہ اسے اس تبدیلی سے پیدا ہونے والی کسی بھی قانونی رکاوٹ سے بچایا جاسکے۔