آئی ایم ایف معاہدے سے مارکیٹ میں ہلچل کیوں؟
وزیر اعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے ایک ملاقات نے وہ کام کر دکھایا جوکہ موجودہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار گزشتہ کئی ماہ سے کرنے سے قاصر نظر آرہے تھے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کا قرض منظور کر لیا اور اس کا اعلان پاکستان میں عید کی تعطیلات کے دوران کردیا گیا۔
گزشتہ روز عید کی تعطیلات ختم ہوتے ہی کاروباری سرگرمیوں کے پہلے دن مارکیٹس میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی خبر ملتے ہی سرمایہ کاروں نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں جو ردعمل دیا وہ معیشت پر پیدا ہونے والے اعتماد کا غماز ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پانے کا سب سے پہلا ردعمل پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے سامنے آیا جہاں پر پیر کے روز مارکیٹ کھلتے ہی کاروبار میں زبردست تیزی دیکھی گئی اور سرمایہ کاروں نے حصص کی فروخت کے بجائے حصص کی خریداری پر توجہ دی۔ مارکیٹ کھلنے کے 5 منٹ بعد ہی مارکیٹ انڈیکس 2230 پوائنٹس بڑھ گیا۔ اس زبردست تیزی کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا رسک منیجمنٹ سسٹم خود بہ خود آپریشنل ہوگیا۔ مارکیٹ کے کے ایس ای 30 انڈیکس میں آنے والی یہ تیزی چونکہ 4 فیصد سے زائد تھی اس لیے مارکیٹ میں ایک گھنٹے کے لیے کاروباری سرگرمی بند کرنی پڑی۔ اس طرح مارکیٹ میں لین دین صبح 9 بج کر 35 منٹ سے 10 بج کر 35 منٹ تک بند رہی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہاں یہ سوال اہم ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کے ایس ای 30 انڈیکس میں غیر معمولی تیزی یا کمی کی صورت میں مارکیٹ کو بند کردیا جاتا ہے؟
مارکیٹ میں تیزی یا مندی کی صورت میں لین دین کو کیوں روکا جاتا ہے؟
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مقامی مارکیٹ کے تجربات اور عالمی سطح پر مارکیٹوں کے اختیار کردہ رسک مینجمنٹ کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ایک جامع رسک مینجمنٹ کا نظام وضع کیا ہے۔ اس کا مقصد مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں کو بلاوجہ کے نقصانات، مارکیٹ میں بے یقینی اور سٹے بازی سے بچنا ہے۔ مارکیٹ میں سرمایہ کار، بروکر کے ذریعے کاروبار کررہا ہوتا ہے اور اس کو ایک حد تک مارکیٹ میں خریداری کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر غیرمعمولی تیزی یا غیر معمولی مندی میں کسی سرمایہ کار کی یہ حد متاثر ہوجائے تو نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان حرکت میں آتی ہے اور وہ سرمایہ کار جو سرمایہ کاری کی حد سے زائد کی سرمایہ کاری کرچکے ہوتے ہیں یا انہیں مقرر حد سے زائد نقصان ہوچکا ہوتا ہے انہیں نقصان کی رقم ادا کرنے اور بروکر اکاؤنٹ میں جمع کرانے کا کہا جاتا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں یہ عمل کسی ایک مخصوص شیئر کی قیمت میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ کی صورت میں بھی اپنایا جاتا ہے اور اگر 5 فیصد تک قیمت میں اضافہ دیکھا جائے تو اس حصص کی خرید و فروخت بھی 45 منٹ تک روک دی جاتی ہے۔
پیر کے روز جب کاروباری سرگرمی دوبارہ بحال ہوئی ہو تو تیزی کا رجحان برقرار رہا۔ کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 2446 پوائنٹس اضافے کے بعد 43899 پر بند ہوا یعنی انڈیکس میں 5.9 فیصد کا اضافہ ہوا، جبکہ کے ایس ای 30 انڈیکس 933 پوائنٹس اضافے کے بعد 15570 پر بند ہوا یعنی انڈیکس میں 6.38 فیصد کا اضافہ ریکارڈ ہوا۔
آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات
آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد روپے کی قدر پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مگر کل عید کی تعطیلات کی وجہ سے یکم جولائی کو بینک بند رہے اور کل بینکوں میں صرف دفتری کام ہوا ہے اور بینکوں نے عام لین دین نہیں کی اس وجہ سے زرمبادلہ کی انٹر بینک مارکیٹ بند رہی۔ اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں بہتر ہوتی دکھائی دی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے سستا ہوگیا ہے، جس کے بعد ایک ڈالر 285 روپے میں فروخت ہوا ہے۔ عید کی تعطیلات سے قبل اوپن مارکیٹ میں ڈالر 290 روپے پر بند ہوا تھا۔ جس وقت یہ مضمون لکھا جارہا ہے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 15 روپے سستا ہوچکا ہے۔
کراچی کی بلینئر مارکیٹ جہاں پر پورے پاکستان کے سونے اور چاندی کے ریٹ کھلتے ہیں وہاں بھی آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات دیکھے گئے۔ سونے کی فی تولا قیمت میں 8800 روپے کمی دیکھی گئی اور فی تولا قیمت 2 لاکھ 7200 کی سطح پر آگئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں روپے کی قدر میں بہتری ہوئی تو سونے کی قیمت میں مزید کمی دیکھی جاسکتی ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کا انتظار صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی نظام پر نظر رکھنے والی غیر ملکی ریٹنگ ایجنسیوں کو بھی تھا۔ معاہدے کی خبر آتے ہی موڈیز انویسٹر سروس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہےکہ آئی ایم ایف پروگرام سے میکرو اکنامک استحکام آئے گا۔ مگر پاکستان کو ریونیو میں اضافے کے علاوہ معاشی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قلیل مدت میں معاشی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ بلند شرح سود کے باعث حکومتی اخراجات اور کاروباری سرمایہ کاری محدود رہے گی۔ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری سے سرکاری لیکویڈیٹی میں معمولی بہتری آئے گی۔ آئی ایم ایف معاہدہ دیگر دو طرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں سے قرض اور مالیاتی اعانت کے حصول میں مدد گار ثابت ہوگا۔
موڈیز کا کہنا ہے کہ مالی سال 2024ء میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی زیادہ رہے گی۔ اب بھی غیر یقینی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی 3 ارب ڈالر کی مکمل فنانسنگ حاصل کر سکے گا یا نہیں۔ اکتوبر 2023ء میں ہونے والے انتخابات میں محصولات کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا امتحان ہوگا۔ پاکستان کو اگلے چند سالوں میں اپنی بڑی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک طویل مدتی بیرونی فنانسنگ پلان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی بھی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان کسی اور پروگرام میں شامل ہوگا یا نہیں یہ انتخابات کے بعد ہی واضح ہو سکتا ہے۔ مستقبل کے کسی بھی پروگرام کے لیے مذاکرات میں وقت لگتا ہے۔
پاکستان کے عالمی مارکیٹ میں جاری کردہ بانڈز کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور بعض سرمایہ کاروں نے ان بانڈز کی خریداری کی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان میں معاملات طے پانے کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات دم توڑ رہے ہیں اور وہ پاکستان جیسی منافع بخش مارکیٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدے کی حتمی منظوری بورڈ آف ڈائریکٹرز سے ملنا ضروری ہے۔ جس کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس 12 جولائی کو طلب کیا گیا ہے۔ بورڈ کی منظوری ملنے کی صورت میں پاکستان کو قرض کی پہلی قسط یعنی 1 ارب 10 کروڑ ڈالر فوری طور پر جاری کردی جائے گی۔
آئی ایم ایف کے مطابق اس معاہدے سے پاکستان پر بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوگا اور سماجی شعبے کے لیے وسائل کی دستیابی بڑھے گی۔ معاہدے پر عملدرآمد کے لیے پاکستان اپنی ٹیکس آمدنی میں اضافہ کرے گا جس سے عوام کی ترقی کے لیے فنڈنگ میں اضافہ کیا جاسکے گا۔ پاکستان کو مالی نظم و ضبط بہتر بنانا ہوگا اور توانائی کی اصلاحات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ بیس رکھنا ہوگا۔
ملک میں مہنگائی کی صورتحال میں بہتری دیکھی جارہی ہے۔ مئی میں افراط زر یا قیمتوں میں اضافے کی شرح موجودہ صدی کی بلند ترین سطح یعنی 38 فیصد تھی جو کہ جون کے اختتام پر 8.6 فیصد کم ہوکر 29 فیصد رہ گئی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کا یہ عمل شاید جولائی میں دوبارہ سر اٹھائے کیونکہ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔
درکار اقدامات
آئی ایم ایف معاہدے کے بعد پاکستان کو توانائی کے شعبے میں ہونے والے خسارے کو کم کرنا ہوگا۔ اس کے لیے آئی ایم ایف بورڈ اجلاس سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا مقصد حکومت کے گردشی قرضے کو بڑھنے سے روکنے کے علاوہ اس کو کم کرنے کے اقدامات کرنا ہے۔ اس وقت توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 4300 ارب روپے ہوگیا ہے۔ جس میں سے 1700 ارب روپے تیل و گیس جبکہ 2600 ارب روپے بجلی کے شعبے کے ہیں۔
اس حوالے سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن (ایس این جی پی ایل) کے صارفین کے لیے قیمت میں 50 فیصد اضافے (415 روپے 11 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو) کا اعلان کیا تھا جس سے قیمت بڑھ کر 1238 روپے 68 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی جب کہ سوئی سدرن گیس (ایس ایس جی سی ایل) کے صارفین کے لیے قیمت میں 45 فیصد اضافہ کیا گیا۔ مگر اس میں بھی مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے بھی نیپرا کا اعلان آئندہ چند روز میں متوقع ہے اور بجلی کے بیس ریٹ میں کم از کم 4 روپے سے زائد فی یونٹ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد بجلی کے یونٹ کی اوسط قیمت 24.80 سے بڑھ کر 29 روپے ہوجائے گی۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے حکومت کو بجلی کی پیدوار، ترسیل اور تقسیم کے شعبے میں موجود خساروں اور چوری کو کم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ صارفین پر اضافی بوجھ کو کم سے کم کیاجاسکے۔ نیپرا کی رپورٹس کے مطابق ملک میں تقریباً 300 سے 400 ارب روپے کے مساوی بجلی کی چوری ہوتی ہے جس کو روک کر نہ صرف حکومت اپنی ریکوری بہتر بناسکتی ہے بلکہ اس سے صارفین پر بھی پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول دوبارہ قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود 21 فیصد کردی ہے تو دوسری طرف ملکی تجارت پر عائد پابندیاں جوکہ حکومت نے ڈالر کی بچت کے لیے لگائی تھیں انہیں ختم کرنے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ درآمدات پر پابندیاں ختم ہونے سے ملک میں 70 فیصد صنعتوں میں رکا ہوا کام دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ اس سے بے روز گاری کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
مگر اس تمام تر صورتحال میں پاکستان کو مالیاتی نظم و نسق قائم کرنا ہوگا اور اپنے ٹیکس بیس کو بڑھانے، حکومتی خسارے کو کم کرنے اور سرکاری کاروباری اداروں میں اصلاحات کے ذریعے خسارے کو کم کرنا ہوگا یا انہیں منافع بخش بنانا ہوگا تاکہ حکومتی بجٹ پر پڑنے والے اس بوجھ کو کم سے کم کیا جاسکے۔
بیرونی فنانسنگ اور سرمایہ کاری کے امکانات
پاکستان کو آئی ایم ایف معاہدے کے بعد دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 3 ارب ڈالر کے مساوی رقم ملنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ اس رقم کی فراہمی کی یقین دہانی دونوں ملکوں نے آئی ایم ایف کو تحریری طور پر کروائی تھی۔ اس کے علاوہ چین سے بھی اس کے میچور ہونے والے قرضوں کی ری رولنگ کے ساتھ ساتھ مزید نئے قرض ملنے کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔ حکومت کی بجٹ دستاویزات کے مطابق مالی سال 24-2023ء میں پاکستان 21 ارب ڈالر کی معاونت ملنے کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جس میں 1.5 ارب ڈالر کے یورو بانڈ کے اجرا کے علاوہ کمرشل بینکوں سے 4.6 ارب ڈالر کا تجارتی قرضہ ملنے جبکہ آئی ایم ایف سے 2.4 ارب ڈالر اور 2.7 ارب ڈالر دیگر کثیر الجہتی شراکت داروں سے ملنے ہیں۔
اسی طرح مختلف ملکوں کی جانب سے پاکستان میں گزشتہ سال سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کی بحالی کے لیے عالمی برادری نے 9 ارب ڈالر کی معاونت کا وعدہ کیا تھا مگر تاحال کوئی رقم اس سلسلے میں موصول نہیں ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد یہ امید جاگ گئی ہے کہ متعلقہ ملک پاکستان کی سیلاب سے بحالی کے حوالے سے اقدامات میں اپنا حصہ ملانا شروع کردیں گے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ملک کے بیرونی قرضوں پر نادہندہ ہونے یا دیوالیہ ہونے کے خدشات بھی بہت حد تک کم ہوگئے ہیں۔ اس لیے یہ دوست ملک، خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے علاوہ آذربائیجان سے بھی بڑی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ یہ تمام ملک مجموعی طور پر 15 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کرچکے ہیں۔
خلیجی ملکوں کی جانب سے پاکستان میں تیل صاف کرنے کے نئے کارخانے لگانے کے علاوہ موجودہ ریفائنریز کو اپ گریڈ کرنے میں بھی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار ہوا ہے۔ تیل و گیس کے علاوہ معدنیات، جدید ذراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دوست ممالک سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اب پڑھنے والے یہ سوال بھی کرسکتے ہیں کہ اگر دوست ملکوں نے سرمایہ کاری کرنی تھی تو آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری کیوں تھا۔ اس کی بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ایک تو پاکستان کے سر پر لٹکتی نادہندہ ہونے کی تلوار ہٹ گئی ہے تو دوسری طرف معیشت میں اصلاحات کے ذریعے کاروبار میں آسانی اور حکومتی اخراجات میں مالیاتی نظم ونسق بہتر ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ یہ تمام وہ عوامل ہیں جن سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔