• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:03pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

’شکیل صاحب جیسے فنکار اپنے فن کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔۔۔‘

شکیل صاحب کی رحلت سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی چراغ تھا جو گُل ہوگیا، کوئی شمع تھی جو بُجھ گئی اور اداکاری کا ایک روشن عہد تھا جوتمام ہوا۔
شائع July 3, 2023

پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ڈراموں کی تاریخ میں جن اداکاروں کے نام سرفہرست ہوں گے ان میں شکیل صاحب کا نام بھی شامل ہے، اور کیوں نہ ہو۔۔۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے 60 برس اس کام کو دیے اور جنہوں نے صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں، بلکہ ہماری زندگیوں میں بھی اہم کردار اداکیا۔

ان کے ڈراموں کے بغیر ہمارا بچپن ادھورا ہے۔ کئی نسلیں ان کے کام کی معترف ہیں۔ وہ ہم سب کے بچپن کی تصویر میں خوشیوں کے رنگ بھرنے والے ایسے فنکار تھے جن کی رحلت سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی چراغ تھا جو گُل ہوگیا، کوئی شمع تھی جو بُجھ گئی اور اداکاری کا ایک روشن عہد تھا جوتمام ہوا۔ ہمارے دل ان کی رحلت سے افسردہ ہیں، ہم سب بطور ناظرین ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو یاد کررہے ہیں۔

    اداکار شکیل (یوسف کمال)
اداکار شکیل (یوسف کمال)

ریڈیو کامائیک

شکیل صاحب کا حقیقی نام یوسف کمال تھا۔ وہ 29 مئی 1938ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن لکھنؤ تھا۔ قیام پاکستان کے کئی سال بعد 1952ء میں ان کے والدین نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور یوں وہ بھارت سے چلے آئے اور پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔

ان کو ابتدائی تعلیم ایک فرانسیسی مشنری اسکول سے حاصل کرنے کا موقع ملا جس سے ان کی شخصیت میں بھی کافی نکھار آگیا وہ ایک خاص اعتماد کے ساتھ زندگی میں مقبولیت اور کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اس نئی زندگی میں کچھ مشکلات بھی راستے کی رکاوٹ بنیں مگر آپ سینہ سپر ہوکر آگے بڑھتے رہے کیونکہ آپ زندگی میں کچھ کردکھانے کے داعی تھے۔

انہوں نے 1950ء کی دہائی میں زمانہ طالب علمی سے ہی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور ریڈیو پاکستان کی طلبا کے لیے تیار کی گئی خصوصی نشریات میں بھی شرکت کی۔ یہاں وہ اپنے استاد نصراللہ خان کی رہنمائی میں پہنچے تھے۔ آپ ان سے اردو پڑھا کرتے تھے نصر اللہ خان ایک مدرس ہونے کے علاوہ اس وقت کے مشہور ڈراما نویس بھی تھے۔ انہوں نے شکیل صاحب کے اندر کا باصلاحیت فنکار پہچانا اور ریڈیو پاکستان سے ان کو موقع دلوایا کہ وہ اپنی صلاحیتیں پوری دنیا پر آشکار کرسکیں۔

تھیٹر کامنچ

تھیٹر سے پہلے ریڈیو ہی وہ میڈیم تھا جس کی بدولت ان کے اندر کے فنکار کی حوصلہ افزائی ہوئی اور وہ اسی اعتماد کے ساتھ جب کالج تک پہنچے تو ریڈیو کے علاوہ تھیٹر میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے لگے۔ یہ 1960ء کی دہائی ہے۔ تھیٹر سے ان کو آشنا کروانے والے علی احمد تھے جو کراچی میں تھیٹر کے فروغ کے لیے انتہائی سرگرم تھے اور مقبول بھی۔ یوں سمجھ لیں کہ تھیٹر کی دنیا میں وہ ان کے پہلے استاد تھے۔ شکیل صاحب نے ان کے ساتھ اسٹریٹ تھیٹر اور روایتی تھیٹر دونوں میں عملی شرکت کی اور بہت کچھ سیکھا۔

تھیٹر کے ایک ڈرامے کے دوران فلمی دنیا کے معروف نام اور مقبول ہدایت کار ایس ایم یوسف نے شکیل صاحب کو تھیٹر میں کام کرتے دیکھا تو فلموں میں اداکاری کی پیشکش کی جسے پہلے تو شکیل صاحب نے مسترد کردیا لیکن کچھ برسوں بعد یہ پیشکش قبول کرلی۔ گاہے بگاہے وہ تھیٹر میں بھی کام کرتے رہے۔ جاپانی لوک کہانیوں سے ماخوذ فاطمہ ثریا بجیا کے اردو ڈراموں کو جب ڈرامائی شکل دی گئی اور ان کہانیوں کو اسٹیج کیا گیا تو ان میں بھی آپ نے اداکاری کی تھی جسے بے حد پذیرائی ملی تھی۔

فلم کی جادونگری

آپ اسی اداکاری کی بدولت فلموں سے جڑگئے۔ 1966ء میں انہوں نے ایس ایم یوسف کی فلم ’ہونہار‘ سے اپنے فلمی کرئیر کی شروعات کی اور انہی کے مشورے پر اپنا پیشہ ورانہ نام تبدیل کرتے ہوئے شکیل رکھ لیا۔ اس فلم میں وہ وحید مراد کے چھوٹے بھائی بنے تھے۔ اس کے بعد آپ کو کافی فلموں میں کام کرنے کاموقع ملا لیکن قسمت نے ساتھ نہ دیا اور یکے بعد دیگرے وہ فلمیں بوکس آفس پر فلاپ ہوتی چلی گئیں۔ اس کے بعد آپ نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی اور ٹیلی وژن کارخ کرلیا۔

آپ کی چند مشہور فلموں میں انسان اور گدھا، چاہت، جی دار اور جمیل دہلوی کی بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم ’جناح‘ اور دیگر شامل ہیں۔ فلم ’جناح‘ میں انہوں نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا کردار نبھایا تھا۔ یہ فلم 1998ء میں ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے عالمی شہرت یافتہ اداکار ’کرسٹوفرلی‘ کے ساتھ کام کیا جو اس فلم میں قائداعظم محمد علی جناح کا کردار نبھا رہے تھے۔ اس کے علاوہ آپ معروف برطانوی سیریز ’ٹریفک‘ میں بھی اداکاری کے جوہر دکھا چکے تھے۔

ٹیلی وژن کی اسکرین

پاکستان ٹیلی وژن پر شکیل صاحب کو معروف پروڈیوسر زمان علی خان لے کر آئے۔ ان کے پہلے ڈرامے کانام ’نیاراستہ‘ تھا جو 1971ء میں نشر ہوا تھا۔ ٹی وی ہی وہ میڈیم تھا جس نے صحیح معنوں میں ان کو شہرت دی۔ شکیل صاحب نے اپنی باقی زندگی اسی میڈیم کے نام کردی اور ٹیلی وژن کے لیے بے شمار کام کیا۔

انہوں نے جن ڈراموں میں اداکاری کی ان میں سے چند ایک ڈرامے ایسے بھی ہیں جن کی تاریخ شکیل صاحب کے بغیر ادھوری رہے گی۔ ان ڈراموں میں شہزوری، زیر زبرپیش، عروسہ، چاند گرہن، انکل عرفی، ان کہی، پرچھائیاں، آنگن ٹیڑھا، میری ذات ذرہ بے نشاں، اڈاری اور دیگر شامل ہیں۔

ان کے نبھائے ہوئے کرداروں میں بھلے 1972ء میں نشر ہونے والے ڈرامے ’انکل عرفی‘ ہوں یا 1984ء میں نشر ہونے والے ڈرامے ’آنگن ٹیڑھا‘ کے محبوب احمد یا پھر 1982ء میں نشر ہونے والے ڈرامے ’ان کہی‘ کے تیمور احمد ہوں، ہر کردار کو اس انداز سے نبھایا کہ وہ امر ہوگیا۔ جمیل دہلوی کی فلم ’جناح‘ میں نبھایا ہوا کردار بھی عالمی سینما کی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

تہذیبی رویہ اور انسان دوستی

شکیل صاحب اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے تھے۔ ان کی زندگی میں جن لوگوں نے اثر ڈالا وہ ان کو ہمیشہ یادرکھتے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ جب میں نے فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں کی تدوین کرکے ان کو کتابی صورت دی اور اس کتاب کی تقریب قونصل خانہ جاپان، کراچی میں منعقد ہوئی تو میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ اس تقریب میں شرکت کریں۔ وہ بجیا کانام سنتے ہی کہنے لگے ’میں بجیا پر بات کرنے کے لیے کبھی بھی اور کہیں بھی آسکتا ہوں، وہ میری محسن تھیں‘۔

اس کتاب کی تقریب میں بھی وہ جس محبت سے حاضرین سے ملے وہ تہذیبی رویہ دیکھنے لائق تھا۔ بے شک وہ ایک بڑے اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ یہ کتاب ’خاموشی کاشور‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جس کو سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔

  کتاب کی تقریب کا منظر ،جس میں خرم سہیل، ڈاکٹر معین الدین عقیل، قاضی واجد، شکیل، عنبرین حسیب عنبر، انور مقصود اور دیگر موجود ہیں—تصویر: خرم سہیل
کتاب کی تقریب کا منظر ،جس میں خرم سہیل، ڈاکٹر معین الدین عقیل، قاضی واجد، شکیل، عنبرین حسیب عنبر، انور مقصود اور دیگر موجود ہیں—تصویر: خرم سہیل

انہوں نے ایک اچھے انسان ہونے کے ناطے مزید کئی ایسے کام کیے جس سے ان کی انسان دوستی کی تفہیم ہوئی۔ انہوں نےکشمیر میں زلزلہ متاثرین کے لیے کام کیا، بارشوں سے جو تباہی ہوئی تو وہ مالی مدد اور اشیائے خور ونوش لے کر بدین گئے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف فلاحی کاموں میں بھی نہایت خاموشی سے اپنا حصہ ڈالتے رہتے تھے۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں فیشن ڈیزائننگ کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور ایسے ملبوسات تیار کیے جن کو دیکھ کر ان کی تہذیبی شائستگی اور لکھنوی پس منظر کی تصدیق ہوتی تھی۔ ان کی نظر میں سب سے اہم بات انسانوں کی خوشیوں کے لیے کام کرنا تھا کیونکہ اس سے ان کو بہت تسکین ملتی تھی۔

  قاضی واجد، شکیل، خرم سہیل اور اکبر سبحانی—تصویر: خرم سہیل
قاضی واجد، شکیل، خرم سہیل اور اکبر سبحانی—تصویر: خرم سہیل

ذاتی زندگی

شکیل صاحب کچھ برسوں سے مختلف امراض میں مبتلا تھے، اس لیے کام کرنا کم کردیا تھا۔ وہ اپنی زندگی سے بے حد مطمئن تھے انہوں نے شاندار پیشہ ورانہ زندگی بسر کی۔ ان کی شادی فرحت صاحبہ سے ہوئی جن سے ان کا ایک بیٹا حیدر اور بیٹی حرا ہیں۔ دونوں شادی شدہ اور دیار غیر میں مقیم ہیں۔ ان کا اپنی شادی سے متعلق کہنا تھا کہ ’میری ارینج میرج ہوئی ہے۔ میری شادی والدہ کی پسند سے ہوئی لیکن میری والدہ میری شادی میں حیات نہیں تھیں۔ میں اﷲ کا بہت شکرگزار ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے زندگی کا بہترین ہمسفر عطا کیا ہے‘۔ وہ اداکاری سے پہلے ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔

اعزازات و کامیابیاں

شکیل صاحب کا سب سے بڑا اعزاز 60 برس تک اپنے ناظرین سے محبت وصول کرنا تھا۔ ویسے انہیں 1992ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ حسن کارکردگی عطاکیاگیا، اس کے علاوہ انہیں چند چیزوں میں اولین ہونے کادرجہ بھی حاصل ہے۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے ان ابتدائی اداکاروں میں شامل ہیں جو کم عمر تھے اور انہوں نے فلموں میں کام کیا، پھرپاکستان ٹیلی وژن کی پہلی رنگین ڈراما سیریز ’پرچھائیاں‘ میں انہیں کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پہلی بین الاقوامی ڈراما سیریل’اڑان’ اور پہلی نجی ڈراما سیریل ’چاندگرہن‘ میں کام کرنے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔

پہلے انڈس ڈراما ایوارڈ کے لیے بہترین اداکار کے طور پر نامزد ہونے والوں میں سے ایک آپ بھی تھے۔ اسی طرح پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا کردار فلم ’جناح‘ میں ادا کرنے کے علاوہ آپ ان چند منتخب اور ابتدائی اداکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے برطانوی ٹیلی فلم، جس کو ٹیلی وژن سیریز بھی کہا جاسکتا ہے، میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے عالمی شہرت بھی حاصل کی۔

شکیل صاحب جیسے شاندار فنکار اور حساس انسان کی یادیں ہم سب کا سرمایہ ہیں اور پاکستانی فنون لطیفہ کی تاریخ بھی، ایک ایسی روشن تاریخ اور حقیقی تعارف جو دنیا بھر میں ہمارے ملک کی شناخت بنتا ہے۔ وہ ہمارے دلوں اور دعاؤں میں ہمیشہ شامل رہیں گے کیونکہ شکیل صاحب جیسے فنکار اپنے فن کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔۔۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔