کراچی کے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت کے باعث عوام پریشان
شہر کراچی کے خستہ حال انفراسٹرکچر، تقسیم و فراہمی کے ناکام نظام کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی لوگوں کو پانی کی قلت کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب فراہمی اور کھپت کے درمیان فرق بڑھ جاتا ہے کیونکہ عید کے دوران کھانا پکانے، صفائی، نہانے کے لیے زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق شہر کے تقریباً ہر علاقے سے پانی کی شدید قلت کی خبریں آتی رہتی ہیں،جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر کئی دہائیوں پرانے انفراسٹرکچر کی وجہ سے فراہمی کی کمی کے مسائل کو دور کرنا ممکن نہیں اور یہ نظام 40 سال کے عرصے سے زیادہ چل رہا ہے۔
پانی کی شدید قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں گنجان آباد اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، گڈاپ، نارتھ کراچی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلستان جوہر، گلشن اقبال، ملیر، لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام کلفٹن کے کچھ حصے، لیاری وغیرہ شامل ہیں جہاں رہائشیوں کو شکایت ہے کہ انہیں 60 فیصد سے بھی کم پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے انتظامی اور میونسپل کنٹرول کے تحت آنے والے شہر کے پوش علاقوں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور کلفٹن میں بھی پانی کی قلت برقرار ہے جہاں لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے پانی کے ٹینکر خریدنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
پانی کا ٹینکر جو پہلے 15 سو روپے سے 2 ہزار روپے میں دستیاب تھا اب اس کی قیمت 5 ہزار سے 55 سو روپے ہوگئی ہے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ایک انجینئر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واٹر بورڈ کا خستہ حال ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ اس کی مقررہ معاشی زندگی مکمل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے 42 فیصد نقصان ہوتا ہے۔
کلفٹن کی ایک رہائشی نے ڈان کو بتایا کہ باقاعدگی سے بل ادا کرنے کے باوجود ہفتے میں ایک بار ان کے علاقے کی مین پائپ لائنوں سے پانی صرف 10 منٹ کے لیے آتا ہے۔
ادھر کھوکھراپار کے رہائشی منصور احمد نے بتایا کہ ان کے علاقے کو ہفتوں سے پانی کی فراہمی نہیں ہو رہی اور علاقہ مکینوں کے پاس واٹر ٹینکر مافیا کے ہاتھوں پریشان ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ واٹر یوٹیلیٹی ناقص ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن سسٹم کے ذریعے بھی پانی کی فراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے اگر اس کا عملہ مؤثر اور ایمانداری سے کام کرے۔
گلشن اقبال بلاک ڈی 13 کے ایک رہائشی سید مظہر علی شاہ نے بتایا کہ علاقے کو صبح سویرے کے اوقات میں صرف ایک گھنٹے کے لیے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہر کے کسی بھی دوسرے حصے کی طرح آپ سکشن پمپ استعمال کیے بغیر پانی حاصل نہیں کر سکتے اور مجھے اپنی نیند قربان کرنے پر پانی کی تھوڑی سی مقدار ملتی ہے۔
بہت سے رہائشیوں کا خیال تھا کہ صرف ٹینکر مافیا کے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے خاص طور پر مذہبی تہواروں کے موقع پر اوپر سے نیچے تک واٹر یوٹیلیٹی کے کچھ اہلکار مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث ہیں۔
ملیر سٹی کی رہائشی بشریٰ بیگم نے بتایا کہ مسلسل قلت کی وجہ سے وہ پانی کا استعمال کم کرنے پر مجبور ہیں،کبھی کبھار مجھے اپنے کپڑے دھونے کے لیے اپنی بہن کے گھر لے جانا پڑتا ہے، واٹر بورڈ کا کیا فائدہ اگر شہر کو مطلوبہ پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا مسلسل ناکام ہے۔
واٹر یوٹیلیٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ شہر کے مرکزی پمپنگ اسٹیشن دھابیجی میں روزانہ 55 کروڑ گیلن سے زیادہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 40 فیصد سے زیادہ پانی صارفین تک پہنچنے سے پہلے یا تو ضائع ہو جاتا ہے یا چوری ہو جاتا ہے۔
کے ڈبلیو ایس بی کے چیف ایگزیکٹو افسر سید صلاح الدین احمد نے ڈان کو بتایا کہ واٹر یوٹیلیٹی عیدالاضحیٰ کے دوران شہر بھر میں صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ایگزیکٹو انجینئرز اور سپرنٹنڈنگ انجینئرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے عید کے دنوں میں اپنے عملے کے ساتھ ڈیوٹی پر موجود رہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام شکایات کے فوری ازالے کے لیے جاری کاموں کی پیش رفت کی براہ راست نگرانی کریں گے۔