• KHI: Fajr 5:53am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 7:00am
  • ISB: Fajr 5:42am Sunrise 7:11am
  • KHI: Fajr 5:53am Sunrise 7:15am
  • LHR: Fajr 5:33am Sunrise 7:00am
  • ISB: Fajr 5:42am Sunrise 7:11am

بجٹ سیشن میں وفاقی وزرا کی غیرحاضری، اتحادی جماعتوں سمیت دیگر ارکان قومی اسمبلی برہم

شائع June 25, 2023
شازیہ مری نے تسلیم کیا کہ متعلقہ وزرا کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ایوان میں موجود ہونا چاہیے—فائل فوٹو:ٹوئٹر
شازیہ مری نے تسلیم کیا کہ متعلقہ وزرا کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ایوان میں موجود ہونا چاہیے—فائل فوٹو:ٹوئٹر

قومی اسمبلی میں گزشتہ روز بجٹ اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزرا کی ایوان سے مسلسل غیر حاضری پر اتحادی جماعتوں سمیت دیگر ارکان اسمبلی نے غصے کا اظہار کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے متعدد اراکین (جن میں زیادہ تر پیپلز پارٹی سے تھے) نے ایوان کی توجہ ملک بھر میں بجلی کی بندش اور سندھ اور بلوچستان میں گیس کی قلت کی جانب مبذول کرائی اور وزرا، بالخصوص وزیر توانائی خرم دستگیر اور وزیر پیٹرولیم مصدق ملک کی تقریباً مکمل بجٹ اجلاس سے غیرحاضری پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

اسی طرح پی آئی اے سے متعلق معاملات کو اٹھاتے ہوئے بعض ارکان نے بجٹ اجلاس سے وزیر ایوی ایشن خواجہ سعد رفیق (جن کے پاس ریلوے کا قلمدان بھی ہے) کی عدم موجودگی پر احتجاج کیا۔

بظاہر اراکن اسمبلی نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر ایوان میں تقریباً 2 ہفتے سے جاری بحث کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے بھی گرانٹس اور کٹ موشن کے مطالبات پر ووٹنگ کے روز اسمبلی سے غیر حاضری پر اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی کے منحرف رہنما راجا ریاض پر تنقید کی۔

حیدرآباد سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید حسین طارق نے کہا کہ اگر وہ آئینی طور پر پارٹی کے فیصلے کے مطابق بجٹ کے لیے ووٹ دینے کے پابند نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی ایسی ’ایگزیکٹو‘ کو ووٹ نہ دیتے بلکہ وہ پیپلزپارٹی کے تمام اراکین اسمبلی سے واک آؤٹ کرنے کی درخواست کرتے تاکہ وزرا کو پارلیمنٹ کی اہمیت کا احساس ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزرا ہمیشہ یہاں موجود ہوتے ہیں لیکن نہ تو وزیر پیٹرولیم اور نہ ہی نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے وزیر ایوان میں موجود ہیں، افسوس ہے کہ وزرا بجٹ اجلاس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان کے نزدیک پارلیمنٹ کی کوئی قدر نہیں ہے تو پھر ہمیں یہاں حاضر ہونے کا کہنے کا کیا فائدہ، یہ پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق ہے، یہ جناب اسپیکر آپ کے ساتھ مذاق ہے اور یہ ہم سب کی توہین ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بلوچستان کے لوگوں کی طرح سندھ کے لوگوں کو بھی گیس کی قلت کا سامنا ہے۔

بلوچستان میں گیس کی قلت کا معاملہ اس سے قبل بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے رکن اسمبلی خالد مگسی نے اٹھایا تھا، علاوہ ازیں وزیر برائے انسداد منشیات شاہ زین بگٹی نے بھی بلوچستان میں گیس کی لوڈشیڈنگ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی عامر مگسی نے کہا کہ بجلی، گیس اور پانی بنیادی انسانی ضروریات ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے لیکن ہماری شکایات سننے کے لیے کوئی وزیر نہیں ہے، یہ انتخابی سال ہے اور ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن قومی اسمبلی منور علی تالپور نے کہا کہ گیس اور بجلی کی قلت جیسے مسائل اور ریلوے اور پی آئی اے سے متعلق معاملات اس ملک کے عوام سے جڑے بنیادی مسائل ہیں لیکن پورے 2 ہفتے کے بجٹ اجلاس کے دوران متعلقہ وزرا ایوان میں موجود نہیں نظر آئے۔

ایم کیو ایم (پاکستان) کے رکن قومی اسمبلی محمد ابوبکر نے بھی کراچی میں بجلی کی طویل بندش کا مسئلہ اٹھایا اور صارفین کو بھاری بل بھیجے جانے کے باوجود بجلی فراہم کرنے میں ناکامی پر کے-الیکٹرک پر تنقید کی۔

انہوں نے پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کی جانب سے وزیر ہوا بازی کے حکم پر کراچی میں پی آئی اے کے ہیڈ آفس میں متاثرہ ملازمین سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی اجازت دینے سے انکار پر بھی احتجاج کیا اور اسے پارلیمنٹ کی توہین قرار دیا۔

وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے تسلیم کیا کہ متعلقہ وزرا کو کم از کم ان مسائل کا جواب دینے کے لیے ایوان میں موجود ہونا چاہیے۔

بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے گیس کی قلت سے متعلق تمام نمایاں مسائل کو مزید غور کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔

دریں اثنا قومی اسمبلی نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے پیش کردہ تمام کٹوتی کی تحریکوں کو مسترد کرنے کے بعد 7 ہزار ارب روپے سے زائد کی گرانٹس کے تمام 133 مطالبات کی منظوری دے دی۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گرانٹس کے لیے تمام مطالبات پیش کیے جنہیں قومی اسمبلی میں بامعنیٰ اپوزیشن کی عدم موجودگی کے سبب کسی رکاوٹ کے بغیر باآسانی ووٹنگ کے بعد منظور کر لیا گیا، قومی اسمبلی میں آج (اتوار کو) فنانس بل کی منظوری متوقع ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 دسمبر 2024
کارٹون : 25 دسمبر 2024