• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باوجود درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا فیصلہ

شائع June 24, 2023
سرکاری عہدیدار نے کہا کہ بظاہر یہ فیصلہ بھی آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیا گیا ہے—فائل فوٹو : رائٹرز
سرکاری عہدیدار نے کہا کہ بظاہر یہ فیصلہ بھی آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیا گیا ہے—فائل فوٹو : رائٹرز

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باوجود گزشتہ برس دسمبر میں عائد کردہ درآمدی پابندیوں میں نرمی کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل بینکوں کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر اور بڑے تجارتی خسارے کے پیشِ نظر مختلف کیٹیگریز کے تحت بعض مخصوص قسم کی درآمدات کو ترجیح دیں۔

تاہم بڑے پیمانے پر درآمدات کی اجازت کا یہ تازہ ترین فیصلہ ایسے وقت میں لیا گیا ہے جب ملک دیوالیہ پن جیسی صورتحال سے بچنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کے سرکلر میں کہا گیا کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے موصول ہونے والی تجاویز کو دیکھتے ہوئے 27 دسمبر 2022 کو جاری کی گئی مذکورہ بالا ہدایات فوری طور پر واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ایک اعلیٰ عہدے پر فائز سرکاری عہدیدار نے کہا کہ پاکستان ان اشیا کی درآمد کی اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، رواں مالی سال کے ابتدائی 11 میں یہ پہلے ہی 49 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، بظاہر یہ فیصلہ بھی آئی ایم ایف کے دباؤ پر کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق درآمد کنندگان گرے مارکیٹوں سے ڈالر کا بندوبست کرتے رہیں گے کیونکہ بینکوں کے پاس ڈالر موجود نہیں ہے۔

پچھلے سرکلر میں بینکوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ ضروری شعبوں جیسے خوراک (گندم، خوردنی تیل وغیرہ)، دواسازی، توانائی (تیل، گیس اور کوئلہ)، خام مال اور اسپیئر پارٹس اور زرعی ان پٹ (بیج، کھاد اور کیڑے مار دوائیں) سے متعلقہ درآمدات کو ترجیح دیں۔

ترجیحی فہرست میں درآمد کنندگان کے خدشات کے پیش نظر درآمدات کو شپمنٹ کی تاریخ سے 365 روز کے بعد موخر ادائیگی کی بنیاد پر شامل کیا گیا ہے۔

ترجیحی فہرست کے مطابق غیر ملکی زرمبادلہ کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جانے والی درآمدات قابل اطلاق فارن ایکسچینج ریگولیشنز کے تحت درآمد کنندگان کے پاس ایکویٹی یا پراجیکٹ لون یا بیرون ملک سے درآمدی قرض کے ذریعے دستیاب ہیں۔

آخر میں تکمیل کے قریب برآمد کے منصوبوں کے لیے درآمد کو ترجیحی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، ایکسپورٹ پر مبنی اُن منصوبوں کے لیے پلانٹ اور مشینری کی درآمد بھی اس میں شامل ہے جن میں پراجیکٹ کے پلانٹ اور مشینری کا کم از کم 75 فیصد پہلے ہی درآمد کیا جا چکا ہے۔

ٹیکسٹائل کی تیار شدہ مصنوعات کے ایک مینوفیکچرر اور ایکسپورٹر عامر عزیز نے کہا کہ اس فیصلے سے مطلوبہ خام مال کی درآمد میں آسانی ہو گی جس سے انڈسٹری کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

طویل عرصے سے ٹیکسٹائل کی پوری انڈسٹری اب بھی اپنی مصنوعات کو برآمد کے قابل بنانے کے لیے درآمد شدہ پلانٹس، پارٹس اور کم از کم 35 فیصد دیگر درآمدی اجزا پر منحصر ہے۔

قبل ازیں اسٹیٹ بینک نے درآمد کنندگان کو اپنے طور پر ڈالر کا بندوبست کرنے کی اجازت دی تھی جس کے نتیجے میں گرے مارکیٹ سے مہنگے ڈالر خریدنے کی وجہ سے درآمدات کی لاگت بڑھ گئی تھی لیکن اس سے بہت سے لوگوں کو اپنا کاروبار جاری رکھنے میں مدد ملی۔

تجارتی قرضوں کے طور پر موصول ہونے والی 30 کروڑ ڈالر کی آمد کے بعد اسٹیٹ بینک کے کُل زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب 80 کروڑ ڈالر ہوچکے ہیں جو 3 ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی نہیں ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024