یونان کشتی حادثہ: ہمیں اب کیا کرنا چاہیے؟
یونان کے جنوبی شہر پائلوس میں ڈوبی کشتی کو 11 روز ہوچکے ہیں۔ 14جون کو ہونے والے اس حادثے نے جہاں بین الاقوامی سطح پر چلنے والے انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کو عیاں کیا، وہیں اندرون ملک ایجنٹوں کے ریکٹ پر شور مچا ہوا ہے اورحکومتی سطح پر اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ اس کشتی میں تقریباً 750 افراد غیر قانونی طور پر اٹلی جانا چاہتے تھے۔ ان افراد میں ایک بڑی تعداد پاکستانی شہریوں کی تھی جو تقریباً 350 سے 400 بتائی جارہی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی اتنی بڑی تعداد نے جہاں پاکستان کے کئی شہروں میں کہرام مچایا ہوا ہے اور حکومتی سطح پر ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا وہیں خود یونان میں 3 دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔
بحیرہ روم اب تک نہ جانے کتنے انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اس کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس حوالے سے اعداد و شمار ملنا ممکن ہی نہیں۔ لیبیا کی بندرگاہ بن غازی سے شروع ہونے والا یہ سفر کتنا غیر انسانی اور تکلیف دہ تھا اس کا اظہار صرف 12 بچ جانے والے پاکستانی ہی کرسکتے ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اس کشتی میں پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ مصری اور شامی شہری بھی سوار تھے۔
یہ پہلا اور آخری موقع نہیں ہے جب تارکین وطن کی کشتی الٹنے اور یورپی ساحل پر انسانی لاشوں میں پاکستانی شہریوں کی شناخت نہ کی جاسکی ہو۔ ابھی 27 فروری کو ایک حادثہ ہوا جب اٹلی کے سمندری حدود میں ایک غرقاب کشتی کے ساتھ کئی پاکستانی بھی لقمہ اجل بن گئے۔ ان میں پاکستانی ہاکی کی قومی کھلاڑی شاہدہ رضا بھی شامل تھیں۔
آزاد کشمیر کے 2 نوجوانوں کی کہانی
عابد کا تعلق کوٹلی کے ضلع بنڈلی سے ہے جو مظفرآباد سے تقریباً 200 کلو میٹر دور ہے۔ اس علاقے سے 26 افراد یونان کی ساحلی پٹی میں کشتی الٹنے سے موت کا شکار ہوگئے۔ دو زندہ بچ جانے والوں کے نام محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمٰن ہیں۔ عابد نے ہمیں فون پربتایا کہ ہلاک ہونے والے افراد میں سے 26 کا تعلق کشمیر کے علاقے بنڈلی سے ہے اور یہ سب آپس میں دور پار کے رشتےدار ہی ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں ان کے دو ماموں زاد بھائی عبدالسلام اور وزیر بھی شامل ہیں۔ عابد کوٹلی کے رہائشی اور سوشل ورکر ہیں۔ انہیں جہاں ایجنٹ پر غصہ ہے تو وہیں وہ سرکاری اداروں سے بھی ناراض نظر آئے۔ انہوں نے غم ناک آواز میں بتایا کہ انہیں یقین ہے اتنے وسیع پیمانے پر ہونے والی انسانی اسمگلنگ اداروں کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ان کے خیال میں کوٹلی اور اردگرد کے علاقوں سے 3، 4 سالوں میں اب تک تقریباً 300 سے 400 افراد ڈنکی کے ذریعے یورپ جاچکے ہیں۔ ان کی اکثریت خوش نہیں اور واپس آنا چاہتی ہے لیکن اب واپس نہیں آسکتی کیونکہ ان کے پاس قانونی سفری کاغذات نہیں۔
ان کے مطابق وزیر کی عمر صرف 23 سال تھی جبکہ عبدالسلام کی عمر بھی 25 سال کے لگ بھگ تھی۔ یہ دونوں غیر شادی شدہ تھے، دونوں نے ہی گریجویشن کی ہوئی تھی جبکہ وزیر اپنے 6 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ وہ یہاں سبزی فروش تھا لیکن اچھا منافع نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی یورپ جا کر پیسے کمانا چاہتا تھا۔ عبدالسلام بھی اپنا کاروبار کرتا تھا۔
عابد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا خاندان ان بھائیوں کے جانے کے خلاف تھا۔ لیکن وہ لوگ بضد تھے کہ انہیں یورپ ہی جانا ہے۔ ایجنٹ نے ان سے 30 لاکھ روپے طلب کیے تھے لیکن سارا معاملہ 24 لاکھ میں طے ہوگیا۔ عابد کو یاد ہے کہ وہ دونوں 13 مارچ کو گھروں سے نکلے تھے۔ وہ خود انہیں اسلام آباد جانے والی گاڑی میں چھوڑ کر آئے تھے۔ جہاں سے انہیں کراچی جانا تھا۔ کراچی سے دبئی اور دبئی سے وہ مصر گئے تھے۔ مصر کے بعد ان کی اگلی منزل لیبیا تھی جہاں وہ مہینے بھر سے زیادہ عرصے تک پھنسے رہے۔
انہوں نے جو تصاویر وہاں سے بھجیں اس میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ان کے بال اور ڈاڑھی بڑھی ہوئی ہے۔ ان کے کپڑے گندے ہیں بلکہ وہ وہاں بیمار بھی پڑگئے تھے۔ یہاں سے سب کے شور مچانے پر انہیں سمندری شکار والی کشتی میں آخر کر چڑھا دیا گیا۔ عابد کے مطابق ان کے ماموں نے بتایا تھا کہ وزیر نے اپنے گھر والوں کو فون کیا تھا اور اس سمندری سفر کو خیریت سے طے کرنے کی دعا کرنے کو کہا تھا۔ ان کے خیال میں اس 5 دن کے سفر سے ان کی زندگی بدل جانی تھی۔ لیکن ان کی کشتی 5 دن تک سمندر میں ہی گھومتی رہی۔ ان کے علاقے کے بچ جانے والے عدنان بشیر نے بھی بتایا کہ ان کے علاقے کے سارے لوگ اس کشتی میں ان کے ساتھ تھے۔ عابد نے یہ بھی بتایا کہ وزیر کی والدہ حیات نہیں ورنہ وہ یہ غم سہہ نہیں پاتیں۔ پہلے ہی وزیر کے خاندان نے بڑے بیٹے کو کھودیا تھا جو چند ماہ پہلے ہی سعودی عرب میں موت کا شکار ہو گیا تھا۔
ایف آئی اے کی اب تک کی کارروائی
حکومتی سطح پر انسانی جانوں کے زیاں پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور سخت سے سخت اقدامات کرکے اس نیٹ ورک کو توڑنے کا عزم کیا گیا۔ اس کے لیے اعلیٰ سطح کی ایک 4 رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کے سربراہ ڈی جی نیشنل پولیس بیورو احسان صادق ہیں۔ ایف آئی اے کے ایک سینیئر افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان نیوز کو بتایا کہ اب تک 167 متاثرہ خاندانوں کے ڈی این اے کے نمونے لے لیےگئے ہیں اور انہیں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھیجا جارہا ہے جہاں سے رپورٹ لے کر یونانی عہدیداروں کو دی جائے گی تاکہ متاثرین کی میتوں کو ان کے ورثا کے حوالے کیا جاسکے۔
اس کیس پر کام کرنے والے ایف آئی اے کے ایک سینیئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’سب سے زیادہ ضروری ہے کہ متاثرہ خاندان ہم سے رابطے میں آئیں۔ جتنے لوگ سامنے آئیں گے، اس سے ہمیں درست کہانیاں پتا چلیں گی اور مقامی ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ اصل ذمہ داروں کو پکڑنا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ رپورٹ درج کروائیں۔
’خیال کیا جارہا ہے کہ 350 سے 400 پاکستانی نوجوان اس کشتی پر سوار تھے۔ لیکن ہم سے اب تک صرف 167 خاندانوں نے رابطہ کیا ہے۔ باقی خاندان سامنے کیوں نہیں آرہے؟ بڑے پیمانے پر ایجنٹس کو پکڑا جارہا ہے جبکہ ان کی اکثریت روپوش ہوچکی ہے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ڈی این اے نمونوں کے نتائج آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ اس لیے لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جتنے زیادہ متاثرہ خاندان ہم سے رابطہ کریں گے ہم اتنی ہی جلدی مجرموں تک پہنچ سکیں گے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جتنے بھی ریکارڈ ملے ہیں اس میں کوئی غیر قانونی عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ پاکستان سے لوگوں نے قانونی دستاویزات پر سفر کیا۔ اس لیے ایجنٹس کے نیٹ ورک کو پکڑنا مشکل عمل ہے لیکن ہم کوشش کررہے ہیں‘۔
اب تک کی تحقیقات کے مطابق 54 مقدمات درج اور 20 سے زائد نامزد ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ گرفتار ہونے والے ایجنٹس کا تعلق کشمیر سمیت حافظ آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرانوالہ، لاہور اور گجرات سے ہے۔ جبکہ 9 مصری شہریوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جن پر انسانی اسمگلنگ اور غیر قانونی کاغذات بنانے کا الزام ہے۔
ایف آئی اے کے لاہور ریجن نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا ہے کہ اب تک لاہور زون سے انسانی اسمگلنگ میں نامزد 17 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ گجرات سے 7، لاہور سے 2، جبکہ گجرانوالہ سے 8 ملزمان کو پولیس نے اپنی حراست میں لیا ہے۔ اینٹی ہیومن ٹریفکنگ لاہور سرکل میں 5، گجرات میں 18، اور گجرنوالہ سرکل میں 31 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کی ڈنکی لگانے والے اکرام اللہ
انٹرمیڈیٹ تک پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے والے اکرام اللہ کی پیدائش کراچی کی ہے لیکن ان کے خاندان کا تعلق سوات سے ہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے 8 سال آسٹریلیا میں اپنا کیس لڑا لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس دوران انہوں نے آسڑیلیا سے بھی قانون کا ڈپلوما حاصل کیا۔ انہوں نے اپنا ڈنکی کا قصہ کچھ اس طرح بتایا کہ مئی 2013ء میں ان کا سفر لاہور سے شروع ہوا ’پہلا پڑاؤ تھائی لینڈ تھا وہاں سے ملائیشیا گیا جہاں 6 دن رہا اور پھر کشتی کے ذریعے انڈونیشیا گیا۔ وہاں ایک جزیرے پر ہمیں اتارا گیا جس کے بعد گاڑی پر ہمارا سفر شروع ہوا۔ ہم 20 سے 24 گھنٹے مسلسل سفر کرتے رہے۔ وہاں سےہم ایئرپورٹ گئے اور ڈومیسٹک سفر کرکے جکارتہ پہنچے جہاں ایک ماہ میں کئی بار میں نے ڈنکی مارنے کی کوشش کی۔ 3کوششوں کے بعد 26 جون 2013ء کو چوتھی بار کہیں جاکر ہم سفر کے قابل ہوسکے‘۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’3 دن اور 3 راتیں ہم سمندر میں رہے۔ آخری دن یعنی 29 جون کو ہماری کشتی بھی ٹوٹ گئی تھی اور ہمیں آسٹریلین کوسٹ گارڈز نے ریسکو کیا اور ہمیں کرسمس آئی لینڈ پہنچایا۔ یہاں ہم نے ڈیڑھ ماہ گزارے پھر ہمیں 5 دن پرتھ میں رکھا گیا۔ پھر چند ماہ بعد ہمارا امیگریشن کا عمل شروع ہوا جو 8 سالوں تک چلتا رہا۔ پیچھے گھر میں والدکا انتقال ہوگیا اور گھر والے دباؤ ڈالنے لگے کہ میں واپس آجاؤں۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ یہ راستہ بہت خطرناک ہے۔ اچھی اور بہتر زندگی گزارنے کے لیے پہلے زندہ رہنا ضروری ہے۔ وہاں حالات ایسے نہیں ہیں کہ پہنچتے ہی آپ کی زندگی بہتر ہوجائے گی۔ اتنی مشکلات ہیں کہ آج کل 50 فیصد لوگ واپسی کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کی بات کروں تو وہ لوگ شدید تناؤ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے خاندان اور گھر والوں سے دور معاشی تنگی الگ جھیلتے ہیں جبکہ مستقبل پر تلوار بھی مسلسل لٹکتی رہتی ہے‘۔
انہوں نے سفری مشکلات کے حوالے سے بتایا کہ ’ملائیشیا سے آسٹریلیا جانے والا راستہ یورپ جانے والے راستے سے زیادہ مشکل ہے۔ سمندر یعنی بحر ہند اور بحر الکاہل دنیا بھر میں خطرناک ترین سمندر مانا جاتا ہے۔ ملائیشیا سے انڈونیشا کے سمندری راستے پر موجود سمندری پہاڑ اس سفر کو مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔ مغرب سے لےکر فجر تک سمندری لہریں کشتی کو اٹھا کر پھینک سکتی ہیں۔ اس دوران سمندر بہت بھپرا ہوا ہوتا ہے۔
’میں نے2013ء میں 9 ہزار امریکی ڈالر دیے تھے۔ ایک چھوٹی گاڑی میں آپ مسلسل 24 گھنٹے بیٹھے رہیں۔ آپ کھڑے نہیں ہوسکتے کوئی حاجت ہو گاڑی آپ کے لیےنہیں رکے گی۔ انڈونیشیا میں اگر پولیس پکڑ لے تو وہ کیمپ میں ڈال دیتی تھی جس کے بعد ایک اندھیری رات ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت تک آسٹریلیا میں تارکینِ وطن کو پناہ مل جاتی تھی۔ میرے نکلنے کے بعد میرے چند دوست اور اس ہی راستے پر آئے لیکن ان کے پہنچنے سے قبل ہی آسٹریلیا کا قانون تبدیل ہوگیا۔ لہٰذا یہ لوگ ملائیشیا سے ہی واپس لوٹ گئے اور جو واپس نہیں گئے، انہیں آسٹریلیا میں پکڑ لیا گیا۔ انہیں 5 سال تک آف شور علاقے میں اور پھر 5 سال تک پی این جی کیمپ میں رکھا گیا۔ سب سےخطرناک ڈیٹینشن آسٹریلیا کی ہی ہے۔ انہیں اتنی تکلیفوں کے بعد آسٹریلیا میں رہنے کی اجازت دے دی گئی لیکن ان کی دماغی حالت آج تک ٹھیک نہیں ہے۔ میں ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں کہ جن کے دو دو بھائی سمندر میں ڈوب چکے ہیں لیکن پھر بھی تیسرا بھائی باہر جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ میں نے ایک دوست جس کا تعلق پارہ چنار سے تھا، اس سے پوچھا تمہارے خاندان نے اس سفر کی اجازت دے دی تھی؟ جس پر اس کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا جانا اس کی زندگی کا خواب تھا جس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے‘۔
انسانی اسمگلنگ کیوں ہو رہی ہے؟
اسلام آباد میں مقیم صحافی جلال الدین مغل کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ہم نے ان سے جانا کہ وہ کیا اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک ہی علاقے سے اتنے نوجوان یورپ جانے کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔
ان کے خیال میں ’جنوبی کشمیر کے ان حصوں میں 1960ء کی دہائی سے ہی بیرون ملک جانے کا رواج رہا ہے۔ اسی زمانے میں منگلا ڈیم بنا اور پرانا میر پور کا علاقہ پانی میں ڈوب گیا جس کی وجہ سے مقامی آبادی متاثر ہوئی۔ برطانیہ میں مقیم زیادہ تر میرپور کے لوگ اسی زمانے میں وہاں منتقل ہوئے۔ وہاں سستی لیبر کی ضرورت تھی اور ان لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ بحری جہازوں میں بھر بھر کر انہیں برطانیہ بھیجا گیا۔ اب جو یہ منقسم خاندان ہیں انہوں نے کوشش کی کہ جو بچہ جوان ہو اسے بھی وہاں بلا لیا جائے تاکہ پیچھے رہ جانے والوں کی زندگی بہتر ہوسکے۔ اب یہ رجحان مقامی آبادی کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ پھیلتے پھیلتے اردگرد کے علاقوں بھمبر اور کوٹلی میں بھی یہ رواج بنتا جارہا ہے۔ بیرونِ ملک جانے والوں کے خاندان کا طرزِ زندگی اور ان کی معاشی حالت میں بہتری نے بھی بیرون ملک منتقلی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے‘۔
ان کے خیال میں ’کیونکہ برطانیہ کا ویزا ملنا اب مشکل اور مہنگا سودا ہوگیا ہے اس لیے لوگوں نے غیر قانونی راستے تلاش کرنا شروع کر دیے ہیں۔ پہلے زمینی راستوں سے یورپ جایا کرتے تھے پھر ایران سے ترکی اور وہاں سے آگے یورپ میں منتقل ہوجاتے تھے۔ افریقی ممالک سے یورپ جانے والا یہ راستہ پچھلے چند سالوں سے متحرک ہےکیونکہ وہاں سیاسی استحکام نہیں ہے اور سرحدی محافظوں کو چکما دینا بھی آسان ہے۔ لہٰذا یہ انسانی اسمگلروں کے لیے آسان راستہ تھا‘۔
انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ یورپ جانے کے پیچھے غربت وجہ تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’یہ حقیقت نہیں کہ بیرونِ ملک جانا مقامی آبادی کی ضرورت ہے کیونکہ باہر جانا اب لوگوں کے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ انہیں ہر حال میں برطانیہ، اٹلی فرانس یا امریکا جانا ہی ہے اور اگر ان کے پاس بالکل ہی پیسے نہیں تو وہ پہلے مرحلے میں دبئی یا سعوی عرب میں محنت مزدوری کرکے سرمایہ جمع کرتے ہیں اور پھر یورپ منتقل ہونے کی کوشش کرتے ہیں‘۔
انہوں نے ایک اور پہلو کی نشاندہی کی کہ ’کشمیر کے ان تینوں علاقوں کے سرحدیں پوٹھوہار ریجن سے ملتی ہیں۔ لہٰذا ان کا مزاج اور رہن سہن بھی ملتا جلتا ہے جبکہ ان کی آپس میں شادیاں بھی ہوتی ہیں۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ پوٹھوہار ریجن کے لوگ ڈنکی مار کر یورپ جاتے ہیں۔ جہاں تک ایجنٹس کی بات ہے تو سب سے پہلے مقامی ایجنٹ سامنے آتا ہے۔ پھر کچھ مڈل ایسٹ میں بیٹھے ہیں اور کچھ آگے یورپ میں ہیں۔ یہ ایک پورا ریکٹ ہے اور سب کے ریٹ طے شدہ ہیں۔ آج کل کا ریٹ 25 لاکھ سے 30 لاکھ تک چل رہا ہے۔ سب سے پہلے مقامی ایجنٹ یہاں سے لوگوں کو گھیرے گا پھر وہ باقی ٹیم کو ان کا حصہ دے گا۔ کراچی والے ایجنٹ سے لے کر دبئی تک اور پھر آگے لیبیا اور اٹلی میں بیٹھے ایجنٹ سب کو ان کے پیسے ملیں گے۔ مقامی سطح پر کشمیر میں بھی اور لاہور میں بھی اب یہ جڑ پکڑ چکے ہیں۔
’یہی نہیں بلکہ اب ان کے رابطے مشرقِ وسطی سے لے کر یورپ تک بن چکے ہیں۔ خاص طور پر مصر اور لیبیا کے ایجنٹ سمندری راستوں سے واقف ہیں۔ وہ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ فضائی سفر یا زمینی راستے سے منتقلی پاکستانی ایجنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہاں سے سمندر میں لے جانا مصر اور لیبیا کے اسمگلروں کی ذمہ داری ہوتی ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ضرورت سے زیادہ لائف اسٹائل کا معاملہ ہے کیونکہ ان علاقوں میں غربت اتنی زیادہ نہیں ہے۔
حل کیا ہے؟
بہتر قانون سازی اور ہنرمند لیبر کی تیاری
انتھروپولوجسٹ ضغیم خان بھی جلال الدین کی تائید کرتے نظر آئے۔ ان کے خیال میں ’یہ سماجی برتاؤ بن چکا ہے۔ یہ علاقے انتہائی غربت والے علاقوں میں شامل نہیں۔ یہ لوگ نہایت غریب لوگ نہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ متاثرین کے خاندان بھی معاشی اور سماجی طور غربت کی لکیر سے نیچے نہیں ہیں۔ اصل میں ہمارے نوجوانوں میں یہ رجحان پیدا ہوگیا ہے کہ یورپی ممالک میں معاشرہ بہتر ہے۔کمانے کی آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی آزادی بھی ہے۔ لہٰذا انہیں بہتر زندگی کے لیے وہاں منتقل ہو جانا چاہیے۔
’اب اس کے لیے قانونی سفری راستے موجود نہیں نا ہی وہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں کہ وہاں موجود نوکریاں حاصل کر سکیں لہٰذا وہ آسان اور غیر قانونی راستے تلاش کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب یورپ انڈسٹریل اکنامی نہیں رہا بلکہ وہاں صورت حال بدل چکی ہے۔ اب وہاں سروس کلچر بن چکا ہے۔ اس لیے اگر ہمارے نوجوان وہاں جانا بھی چاہتے ہیں تو انہیں پروفیشنل ڈگری حاصل کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ نوجوانوں کو بتانا ضروری ہے کہ 25 لاکھ میں آپ یہاں بھی بہت اچھا کما سکتے ہیں۔ خود کاروبار کریں اور قانون نہ توڑیں‘۔
سیکیورٹی ایجنسیوں کو بھی اسے روکنے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کا مشورہ ہے کہ ڈی پورٹ ہونے والوں کو حکومت اپنے خرچے پر نہ بلائے بلکہ انہیں ان کے خاندان کے پیسوں پر واپس بلایا جائے اور ساتھ ہی واپسی پر انہیں سزا بھی ملنی چاہیے تاکہ وہ ڈی پورٹ ہونے کے بعد پھر سے غیر قانونی ذرائع نہ اپنائیں۔
نوجوانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے
اکرام اللہ کہتے ہیں کہ ’اب آپ 25 لاکھ روپے دے کر جارہے ہیں تو اس پیسے سے آپ یہاں کاروبار بھی کر سکتے ہیں ۔ ہمارے نوجوان بس یورپ کے خواب دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں کو یہاں بھی پورا کر سکتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک میں بسے لوگ مزے کر رہے ہیں جبکہ وہ بھی اچھی حالت میں نہیں۔ جو کماتے ہیں اس میں سے زیادہ تر وہیں خرچ ہو جاتا ہے۔ ان کی بچت کچھ نہیں ہوتی بلکہ وہ زیادہ محنت کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایک نوکری سے گزارہ نہیں ہوتا۔ لہذا آپ یہاں پاکستان میں ہی کوئی چھوٹا سا کاروبار کریں۔ آپ اپنے خاندان کے پاس ہوں گے، ذہنی تھکن اور تناؤ کا شکار نہیں ہوں گے تو یقیناً آپ یہاں بھی بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ سوچیں زیادہ پیسے ہوں لیکن دماغی طور پر تناؤ کا شکار ہوں یا پھر زندہ ہی نہ رہیں تو؟ لہٰذا قانونی طریقے اپنائیں‘۔
سرکاری اداروں میں تعاون اور قانون کی عملداری
اسٹیبل سوشل ڈیولپمنٹ اورگنائزیشن یعنی ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کا موقف ہے کہ ’اس وقت غیر سرکاری تنظیموں کو پولیس، ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ سرکاری حکام کے ساتھ مل کر ایڈووکیسی اور استعداد کار بڑھانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ پھر میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انسانی سوداگری اور اسمگلنگ کے بارے میں آگاہی کے لیے کام کرے‘۔
انہوں نے زور دیا کہ قومی اور صوبائی اراکین پارلیمنٹ، متعلقہ سرکاری افسران، پولیس، ایف آئی اے، پراسیکیوشن، وکلا، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور متاثرہ افراد کی مشاورت ضروری ہے۔
انٹرنیشنل سینٹر فار مائیگرئشن پالیسی ڈیولپمنٹ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا کام غیر قانونی نقل مکانی اورانسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے حکمت عملی بنانا اور روک تھام پر بات کرنا ہے۔ پاکستان میں اس ادارے کے تحت مائیگریشن رسورس سینٹر کام کر رہا ہے جس کے پروجیکٹ مینیجر کا کہنا ہے کہ آگاہی مہم چلانے کی شدید ضرورت ہے۔ خاص کر ان علاقوں میں جہاں یہ رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ملک کے ان حصوں میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خاندان اس طرح نقصان نہ اٹھاسکیں۔
نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے سفر کے نقصانات، خطرات اور آگے کی پریشانیوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ مل کر پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ ٹرانزٹ روٹ اور بین الاقوامی سرحدی راستوں پر پہرہ داری بڑھانا بھی ضروری امر ہے تاکہ غیر قانونی ٹریفکنگ کو روکا جاسکے۔ انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ نئے مسائل نہیں لیکن ممالک آپس میں مل کر اسے روک ضرور سکتے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی سطح پر سیکیورٹی اداروں کو منظم انداز میں ان گروہوں کو پکڑنے کی ضرورت ہے جن کے نیٹ ورک بیرون ملک بن چکے ہیں۔
مائیگریشن رسورس سینٹر کی کوآرڈینیٹر نادیہ اشرف سمجھتی ہیں کہ ’تازہ ترین سانحہ کے حوالے سے ہمیں سب سے زیادہ تحقیق اور آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ مجرمان کو پکڑ کر اس سلسلے کو روکا جاسکے۔ ہمارا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں نوجوان یہ جان سکتے ہیں کہ کون سا تعلیمی ادارہ بیرون ملک رجسٹرڈ ہے اور کون سا نہیں۔ ساتھ ہی ہم لوگوں کو بیرون ملک ملنے والی نوکریوں کی جانچ پڑتال بھی کرتے ہیں۔ یعنی لوگ جھانسوں سے بچنے کے لیے ہم سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم بین الاقوامی سطح پر اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم بتا سکتے ہیں کہ ان کا ایجنٹ کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کر رہا یا انہیں جو نوکری کی لالچ دی جارہی ہے وہ جعلساز ی تو نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس طرح سے اپنا سرمایہ اور زندگی دونوں خطرے میں ہرگز نہ ڈالیں۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔