سفرنامہِ ہسپانیہ: میڈریڈ کی سیر (دوسری قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
میڈریڈ کا ہوائی اڈہ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ رقبے کے اعتبار سے میڈریڈ کا ADOLFO SUAREZ BARAJAS ایئرپورٹ اور پیرس کا چارلس ڈیگال ایئرپورٹ یورپ کے سب سے بڑے ہوائی اڈے تصور کیے جاتے ہیں۔ اکثر بڑے ہوائی اڈوں پر مسافروں کو اپنے متعلقہ گیٹ پر جانے اور دیگر چیزوں کی تلاش میں کچھ دقت پیش آتی ہے لیکن میڈریڈ کا ہوائی اڈہ اس انداز سے تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں بھول بھلیاں نہیں ہیں اور یہ ایک ریلوے پلیٹ فارم کی طرح سیدھا ہے جس کی وجہ سے مسافروں کو دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
طیارے سے ایئرپورٹ کے امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے میں ہمیں 20 منٹ کا وقت لگا۔ امیگریشن کا عمل مکمل ہونے اور اپنے سامان کی وصولی کے بعد ہم ایئرپورٹ کے مرکزی دروازے کی طرف روانہ ہوئے۔ مرکزی دروازے سے باہر نکلتے ہی اسپین کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت میڈریڈ نے سرد اور خشک ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں نومبر کے مہینے میں ناران کی یخ بستہ وادی میں داخل ہوگیا ہوں۔
میڈریڈ کے ہوائی اڈے سے تقریباً 30 یوروز کے عوض ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ میڈریڈ شہر کے مرکز پیورٹا ڈے سول (purta del sole) میں اپنی رہائش کے لیے روانہ ہوئے۔ میڈریڈ شہر کی سڑکیں، چوراہے اور راستے حیرت انگیز حد تک کشادہ اور خوبصورت تھے۔ چوراہے اتنے خوشنما اور دیدہ زیب بنائے گئے ہیں کہ صحیح معنوں میں دل موہ لینے والے تھے۔
کہیں پر یادگاروں کی تعمیر تو کہیں مختلف چوراہوں میں مجسمے اور فواروں کے دلکش مناظر۔ کہیں پر آزادی کے حوالے سے باب الفتح کی یادگار، کہیں آرٹ کے نمونے تو کہیں خوبصورت پھولوں سے سجا فٹ پاتھ۔ اتنی دلکشی شاید یورپ کے کسی اور شہر میں ہو۔
اس شہر میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کی تزئین و آرائش ہمارے آنے سے پہلے کی گئی ہو۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں تھا، میڈریڈ شہر کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ ہر آنے والے کا یہ شہر بھرپور انداز میں استقبال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر شہری آبادی کی بہترین شکل اور سڑکوں و گلیوں کی تعمیر کے حوالے سے بات کی جائے تو بلاشبہ میڈریڈ شہر کو آپ دنیا کے خوبصورت شہروں میں شامل کرسکتے ہیں۔
میڈریڈ شہر میں چند ساعتیں
میڈریڈ کے ہوائی اڈے سے نکلے ہوئے ہمیں 20 منٹ ہوچکے تھے۔ شہر کے ایک مشہور الکالی اسٹریٹ اور پیسیو ڈی لا کاسٹیلانا سے گزرتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور (جس کا تعلق پنجاب کے شہر جہلم سے تھا) نے شہر کے مشہور سیاحتی مقامات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ 65 لاکھ آبادی پر مشتمل عظیم ثقافت اور تاریخی فن تعمیر کے لیے مشہور اسپین کا خوبصورت شہر میڈریڈ سطح سمندر سے 650 میٹر کی اوسط اونچائی پر واقع ہے۔ میڈریڈ کو پیرس کے ائفل ٹاور، روم کی کیتھولک تاریخ، بارسلونا کی ماڈرنسٹا کے شاہکاروں اور لا سگراڈا فیمیلیہ کی طرح شہرت تو حاصل نہیں، لیکن ہسپانیہ کی تاریخ میں قرون وسطیٰ کی حویلیوں اور شاہی محلوں سے لےکر ہسپانوی عصری فنِ تعمیر کے ناقابل تصور زاویوں پر بنا شہری زندگی کا ایک شاندار پس منظر ضرور رکھتا ہے۔
اسپین کے دارالحکومت میڈریڈ کو عرب ’المجریط‘ کہتے تھے جس پر مسلمانوں کی طویل عرصے تک حکومت رہی۔ الفونسو پنجم نے میڈریڈ سے مسلمانوں کی حکمرانی کا خاتمہ کیا اور شہر کی جامع مسجد کو شہید کرکے اس کی جگہ پر چرچ تعمیر کیا۔ میڈریڈ میں محمد اول نے ایک محل بھی تعمیر کیا تھا جوکہ آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح اس خوبصورت شہر میں مختلف تہذیبوں کے کئی تاریخی مقامات موجود ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے سالانہ 60 لاکھ سے زائد سیاح اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ ہماری رہائش کے قریب شہر کے وسط میں مشہور سیاحتی مقامات پورٹا ڈی سول، پلازہ میئر، پلازہ ڈی ٹورس، اور پلازہ ڈی کولن موجود تھے۔ ہم نے سوچا کہ مغرب کے بعد ان مقامات کا دورہ ضرور کریں گے۔
ڈرائیور کی باتوں کو ہم غور سے سن رہے تھے لیکن اس وقت میرا دھیان صرف اپنے موبائل کے کیمرے سےمنظر کشی کرنے پر تھا۔
مشہور سیاحتی مقامات کی فہرست تو ویسے بھی میرے پاس پہلے سے ہی موجود تھی۔ بہرحال شہر کی مختلف گلیوں اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کار بلآخر ہماری مطلوبہ منزل پر پہنچ گئی۔
ٹیکسی ڈرائیور نے اپنے فون سے اپارٹمنٹ کے مالک سے ایڈریس کنفرم کرنے کے بعد ہمیں اپارٹمنٹ اور قریبی پاکستانی انڈین ریسٹورنٹ کی نشاندہی کی اور کرایہ وصول کرنے کے بعد اپنی راہ لی۔ تھوڑی دیر میں ہم میڈریڈ کے مرکزی علاقے میں موجود ایک خوبصورت اپارٹمنٹ میں براجمان ہوئے۔ سفر کی تھکاوٹ اتارنے کے لیے آرام کی عرض سے لیٹ گئے اور چونکہ بھوک سے برا حال تھا اس لیے مغرب کی نماز کے فوراً بعد ہم پاکستانی کھانے کی تلاش میں نکل پڑے۔
میڈریڈ شہر کے سب سے گنجان اور مشہور سیاحتی مقام پورٹا ڈی سول میں موبائل سم خریدنے اور کچھ دیر فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم قریبی حلال ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے روانہ ہوئے۔ میڈریڈ شہر کو اپنے روایتی کھانوں کی وجہ سے بھی پورے یورپ میں خاص مقام حاصل ہے۔ چونکہ ہمیں حلال کھانے کی تلاش تھی، اس لیے جہاں ہم قیام کررہے تھے وہاں سے 15 منٹ کی پیدل واک پر واقع ایک بنگلادیشی ریسٹورنٹ میں ہم نے شوارما نما برگر کا آرڈر دیا اور اسی ریسٹورنٹ کے کونے میں موجود ٹیبل پر انتظار کی گھڑیاں گننے لگے۔
اگلے دن صبح سویرے ہمیں قرطبہ شہر کی طرف نکلنا تھا۔ اس لیے میٹرو اسٹیشن قریب ہونے کی وجہ سے صبح سویرے ہماری رہائش کے قریب مشہور سیاحتی مقامات وزٹ کرنے کے بعد فاسٹ ٹرین کے ذریعے قرطبہ شہر کی طرف روانگی کا پروگرام فائنل ہوا۔
میڈریڈ کی رات اپنے جوبن پر تھی۔ پورٹا ڈی سول کے تجارتی مرکز میں سیاحوں اور مقامی لوگوں کا رش دیدنی تھا۔ دل تو بہت چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر میڈریڈ کی رات رنگینیوں کا مزہ بھی لیا جائے لیکن ایک طرف سرد اور خشک ہوا وہاں قدم جمنے نہیں دے رہی تھی تو دوسری طرف سفر کی تھکان نے بھی برا حال کردیا تھا۔ اس لیے بنگلادیشی شوارما نوش کرنے کے بعد ہم نے اپنی رہائش پر پہنچنے پراکتفا کیا۔
صبح نماز فجر کے بعد تقریباً 7 بجے کے قریب ہم ناشتے کے لیے میڈریڈ شہر میں انڈین کھانوں والی گلی ’کالے ڈی پیلار‘ کی طرف پیدل مارچ کرنے لگے۔
گوگل میپ ہماری رہائش سے ریسٹورنٹ کا فاصلہ 20 منٹ بتا رہا تھا۔ صبح کے ساڑھے 7 بج چکے تھے لیکن اس وقت بھی رات کی تاریکی پوری طرح قابض تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم رات کے آخری پہر میں میڈریڈ کا نظارہ کررہے ہیں۔ سنسان و ویران گلیاں، پورٹا ڈی سول کا گنجان مرکزی بازار جہاں رات کو تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، اس وقت بالکل سنسان تھا۔ ایک دفعہ تو ارادہ کیا کہ واپس اپنی رہائش پر چلے جاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد نکلیں گے لیکن ہم کچھ دیر بعد افتخار علی کے اصرار پر ریسٹورنٹ کے بند دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔
ریسٹورنٹ بند ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ قریب واقع ایک بڑے اسٹور سے چائے کے ایک کپ کے ساتھ کوئی سوئٹ ڈش لے لیں جبکہ باقی ناشتہ اتوچہ کے ٹرین اسٹیشن پر کیا جائے۔ اس لیے اسٹور پر ایک کپ چائے اور بریڈ کھا کر واپس پورٹا ڈی سول کے سیاحتی مقام کے لیے روانہ ہوگئے۔
پورٹا ڈیل سول میڈریڈ کا سب سے مشہور اور وسطی اسکوائر ہے۔ 1854ء سے 1860ء میں ہونے والی تزئین و آرائش کے بعد اس کی موجودہ شکل فنِ تعمیر کا ایک بے مثال شاہکار ہے۔ یہ اس شہر کا سب سے مشہور اور مصروف ترین مقام ہے۔ پورٹا ڈیل سول کا مطلب ہسپانوی زبان میں ’سورج کا دروازہ‘ ہے۔ 15ویں صدی میں میڈریڈ شہر کے اردگرد تعمیر کی گئی دیوار کے دروازوں میں سے ایک دروازے کا نام یہ تھا جو مشرق کی جانب کُھلتا تھا۔
یہ پورے اسپین کے سڑکوں کے نیٹ ورک کا مرکزی پوائنٹ (0کلومیٹر ) بھی ہے۔ اسکوائر میں مشہور اور تاریخی گھڑی کی گھنٹیاں ہسپانوی ثقافت کے 12 انگور پر مشتمل روایتی کھانے اور نئے سال کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔
میڈریڈ میں بہترین اصلاحات اور مثالی تعمیر کی وجہ سے عوامی مطالبے پر ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے پورٹا ڈی سول اسکوائر کے وسط میں شاہ کارلوس سوم کا مجسمہ نصب کیا گیا۔
ساڑھے 8 بج چکے تھے۔ صبح کی کرنوں نے بھی رات کی تاریکیوں کا قبضہ ختم کرنا شروع کردیا تھا۔ اس تاریخی اور سیاحتی مقام کی منظرکشی کرنے کے بعد قریب ہی ایک اور مقام ’اسٹرابیری کے پودے کے ساتھ ریچھ کے یادگاری مجسمے‘ کی جانب بڑھ گئے۔ ایک درخت سے پھل کھاتے ہوئے ریچھ کا یہ 20 ٹن وزنی مجسمہ میڈریڈ کے اصل نام ’عرساریہ‘ کے ساتھ منسوب ہے جس کا لاطینی زبان میں مطلب ہے ’ریچھوں کی سرزمین۔‘ تاریخ دانوں کے مطابق شہر سے ملحقہ جنگلات میں بہت زیادہ ریچھ اور اسٹرابیری کے درخت موجود تھے جو قرون وسطیٰ کے دور سے ہی اس شہر کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
یہاں ہم اپنی رہائش سے سامان لےکر میٹرو اسٹیشن پہنچ گئے جہاں سے خودکار مشین سے اتوچہ ٹرین اسٹیشن کے لیے ٹکٹ خرید کر مطلوبہ ٹرین کے ذریعے 15 منٹ میں ہم اتوچہ اسٹیشن پہنچ گئے۔
تھوڑی سی تاخیر کی وجہ سے پہلے تو ساڑھے 10 بجے والی ٹرین نکل گئی۔ پھر فی کس کے حساب سے 25 یوروز کا ٹکٹ بھی مہنگا ملا۔ خیر ساڑھے 11 بجے کے قریب تیز رفتار ٹرین کے ذریعے ہم قرطبہ (کوردوبہ) کی طرف گامزن ہوئے۔
تصاویر بشکریہ لکھاری
عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔