پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک کا اظہارِ تشویش
سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے پہلے سے زیادہ فکر مند ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز لندن میں منعقدہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے آخری سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ پاکستان کو اُن مالیاتی اداروں کے ساتھ تعمیری تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے جن پر وہ تعاون کے لیے انحصار کرنا چاہتا ہے۔
’پاکستان کے معاشی بحران کی بنیادی وجوہات اور ان سے نمٹنے کے طریقے‘ کے عنوان سے نادر چیمہ کے زیر انتظام منعقدہ تقریب کے ڈسکشن پینل میں ماہر معاشیات عشرت حسین، ظفر مسعود اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ میں ہمیشہ لوگوں سے حوصلہ افزا گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن نوبت یہاں تک آگئی ہے، اگر آپ ایک کمپنی یا ایک ایسے شخص ہیں جس کو مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے مالی تعاون کی ضرورت ہے تو پہلا قدم یہی ہے کہ جو بھی مالیاتی ادارہ آپ کو یہ تعاون فراہم کرے گا اس کے ساتھ تعمیری تعلق قائم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں فکر مند ہوں کیونکہ عالمی مالیاتی برادری کے ساتھ ہمارے تعلقات پچھلے چند مہینوں میں بہتر نہیں ہوئے ہیں، ان کے ساتھ ہمارے معاملات اور رابطے کی صورت میں بگاڑ نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ڈیفالٹ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں وہاں موجود لوگوں کے ساتھ تعمیری تعلق رکھنا ہوگا، ہم ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتے جن کی مدد کی ہمیں ضرورت ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاملات اس جانب نہیں جارہے۔
ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ اگر ہمیں دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان ایک تکلیف دہ اور طویل دور سے گزرے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے کورونا وبا کے دوران اسٹیٹ بینک کے لیے خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا، جو کہ کہیں زیادہ مشکل دور تھا، اگر ہم کورونا وبا سے نمٹ سکتے ہیں تو ہم اس بحران سے بھی نکل سکتے ہیں، ہمیں ان وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں، اس بات پر یقین رکھنا ہوگا کہ اصلاحات کے ساتھ اس صورتحال سے باہر نکلیں گے۔
سوال جواب کے سیشن کے دوران سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس کی بات آئے تو فوج اور سیاسی جماعتیں دونوں ہی اسے بہتر بنانے کی خواہاں نظر نہیں آتیں، ٹیکس لگانے کا معاملہ آئے تو ریاست کی رضامندی شامل ہونا ضروری ہے۔
ماہر معاشیات عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 60 فیصد زراعت، ہول سیل، ریئل اسٹیٹ کنسٹرکشن اور ٹرانسپورٹ سے آتا ہے اور ان شعبوں پر ٹیکس کا بوجھ کم ہے، سارا بوجھ اورگنائزڈ سیکٹر پر پڑتا ہے اور یہ فرق مزید سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام مزید معاشی بدحالی پیدا کر رہا ہے، وزرائے اعظم کو 5 سال پورے کرنے کا موقع دیں، انتخابات میں جوڑ توڑ نہ کریں، انہیں اس خوف کے بغیر حکومت کرنے دیں کہ وہ سیاسی حمایت کھو دیں گے، فورسز کی بلاجواز مداخلتیں غیر آئینی ہیں۔