مغلوں کے پکوانوں کے حوالے سے لکھنے بیٹھا ہوں تو میرے سامنے 4 کتابیں موجود ہیں۔ پہلی کتاب امیر تیمور کی ہے جو اُس کی خود نوشت ہے۔ اُس نے وسط ایشیا کو تقریباً دُھن کر رکھ دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’عراق عجم اور فارس پر قبضہ کرنے کے بعد میرے پیر قطب القطاب نے مجھے عراق و عرب کو فتح کرنے کی ترغیب دی۔ میں جب اپنی فوج کے ساتھ بغداد پہنچا تو سلطان احمد میرے ڈر سے بھاگ گیا اور بغداد میرے قبضے میں آیا۔ پھر میں آذربائیجان سے ہوتا دشت قبچاق میں داخل ہوا اور کامیاب ہوا۔ تب ہم نے ہندوستان کو تسخیر کرنا ضروری سمجھا۔ مگر کچھ امیر ہندوستان پر حملہ کرنے سے متعلق متذبذب تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے ہندوستان کو فتح کرلیا اور وہاں سکونت اختیار کی تو ہمارے بیٹے اور پوتے اپنی فوجی ترکیب سے خارج ہوجائیں گے اور اس طرح ہماری نسل تباہ و برباد ہوجائے گی‘۔
یہ 1395ء کی بات ہے جو امیر تیمور کے کسی صلاح کار نے اُس سے کہی تھی۔ یعنی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بربادی (1857ء) سے 457 برس پہلے! میں سوچتا ہوں وہ کتنا ذہین آدمی ہوگا جس نے ٹھنڈے اور گرم علاقوں کے اثرات کا اتنا حقیقت پسند اور شاندار تجزیہ کیا تھا۔ کیونکہ 460 برس کے بعد اس امیر کی بات بالکل سچ نکلی۔
میرے سامنے 3 کتابیں ہیں، اُن کی ترتیب اتفاقاً کچھ اس طرح سے بنتی ہے جو ابتدا، وقت کی دوپہر کا پڑاؤ اور دن کے اختتام کی دُکھ بھری کہانی کی غمازی کرتی ہیں۔ پہلی کتاب ’آئین اکبری‘ ہے جو کہ اکبر کے زمانے (1556ء۔1605ء) کی ہے۔ دوسری کتاب ’نسخہ شاہ جہانی‘ ہے جو شاہ جہاں (1628ء۔1658ء) کے دور کی ہے جسے میں مغل سلطنت کے سفر کا پڑاؤ کہتا ہوں۔ جبکہ تیسری کتاب ’بزم آخر‘ ہے جو مغل سلطنت کے آخری دو حکمرانوں اکبر شاہ ثانی (1806ء۔1837ء) اور ابو ظفر سراج الدین بہادر شاہ ظفر (1837ء۔1857ء) کے لال قلعے میں گزرے شب و روز کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ یعنی ابتدا، پڑاؤ اور اختتام۔
ان تینوں نسخوں کے مطالعے کے بعد آپ کے ذہن میں ایک وسیع کینوس بچھ جاتا ہے جس پر مغل بادشاہوں کے 450 برس اپنے اپنے رنگوں کے ساتھ بکھر جاتے ہیں۔
بادشاہ بابر کے بعد کسی بھی مغل بادشاہ نے یہ تمنا نہیں کی کہ اُس کا جسد خاکی یہاں نہیں بلکہ کسی ٹھنڈے علاقے یعنی سمرقند یا کابل میں دفن کیا جائے۔ اس سے یہ سمجھنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے کہ یہاں کا گرم ماحول، وسائل، طاقت اور پیسوں کی فراوانی نے ان کو مستقل طور یہاں رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد پر حکومت کرنا، بہت سارے علاقوں کا بادشاہ بن جانا، سب کو اچھا لگتا ہے اور انہیں بھی اچھا لگا۔
ہمایوں کے بعد چونکہ اکبر سندھ کے گرم ریگستانوں میں پیدا ہوا تو وہ جنم سے ہی یہاں کا تھا۔ میں جب ’آئین اکبری‘ پڑھتا ہوں تو مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ یہاں کیا کچھ نہیں تھا؟ بلکہ اتنا کچھ تو شاید دنیا کے کسی اور کونے میں نہیں تھا۔ اور اس وسیع ملک کی آمدنی 3 چیزوں پر سب سے زیادہ خرچ ہوتی تھی۔ وہ 3 چیزیں تھیں فوج، تعمیرات اور خوراک۔ مطلب آپ اگر کھانوں کے نام پڑھیں اور خوراکوں کی تعداد دیکھیں تو آدمی پاگل ہوجاتا ہے۔
’آئین اکبری‘ کے مصنف علامہ ابوالفضل لکھتے ہیں کہ ’بادشاہ (اکبر) خود صرف ایک وقت کی غذا نوش فرماتے ہیں اور سیر ہونے سے پہلے ہی خوراک چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود کھانے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے لیکن ملازمین سامان اس طرح تیار رکھتے ہیں کہ فرمائش کے ایک گھنٹے بعد سو قاب دستر خوان پر چُنے جا سکیں۔ شاہی حرم سرا میں جو کھانا صرف ہوتا ہے، اس کی تقسیم صبح سے شروع ہوجاتی ہے اور رات تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے‘۔
جہاں بادشاہ کا کھانا پکتا، وہ ایک انتہائی اہم یونٹ کا درجہ رکھتا تھا، اُس کا بجٹ ضرورت کے تحت فوری دے دیا جاتا۔ جتنے کھانے یہاں بنتے اُن کے سامان کے اپنے الگ الگ انچارج ہوتے۔ اس مطبخ (باورچی خانے) میں بہت سارے ممالک کے باورچی ہوتے جو طرح طرح کے کھانے پکاتے۔ بقول ابوالفضل کے ’غلہ و ترکاری، گوشت و روغن و شیرینی و مصالحہ دار اشیا میں قسم قسم کی نعمتیں ہر روز مہیا کی جاتی تھیں، روزانہ تصرفی کھانا ایسا تیار کیا جاتا ہے کہ جو امرا کو دعوتوں کے موقع پر بھی کم ہی نصیب ہوتا ہے‘۔
اب مصنف’نوروز’ کے تہوار کا ذکر کرتا ہے۔ تھوڑا دھیان سے پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح فقط خوراک کے لیے ایک نظام قائم تھا۔ ’نوروز کے آغاز میں مددگار خزانچی ایک سالہ خرچ کا تخمینہ پیش کرتا ہے جس کی رقم اُسے ادا کردی جاتی ہے۔ پیسوں کی تھیلی اور اجناس کے حجروں پر میر بکاول اور منشی کی مہریں لگی ہوتی ہیں۔ ہر ماہ روزانہ اخراجات کا صحیح اندازہ لگاکر اس مہینے کا حساب تیار کیا جاتا ہے جن کی رسیدوں پر دو عہدیداروں کی مہریں ہوتی ہیں۔ مطبخ کے لیے سگداسی چاول بھڑوچ سے، دیو زیرہ چاول گوالیار سے، قاز، مرغابیاں اور اکثر ترکاریاں کشمیر سے منگوائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ بکریاں، بھیڑ، بربری، مرغ و قاز وغیرہ کو باورچی پالتے ہیں اور فربہ کرتے ہیں۔ یہ مُرغیاں ایک مہینے سے زیادہ نہیں رکھی جاتیں۔
’خاص کھانا طلائی، نقرئی، سنگی اور خاکی ظروف میں تیار ہوتا ہے۔ چند دیگچیاں کسی ایک ماتحت بکاول کے سپرد کی جاتی ہیں جو خاص اسی کے انتظام میں تیار ہوتی ہیں۔ کھانا ایک شامیانے کے نیچے پکایا اور نکالا جاتا ہے اور محافظین برابر دیکھ بھال کررہے ہوتے ہیں۔ کھانا پکانے والے پخت کے وقت آستین چڑھا کر دامن کمر سے باندھ لیتے ہیں۔ تیاری کے بعد پہلے بکاول اور چاشنی گیر چکھتے ہیں، اس کے بعد میر بکاول چکھتا ہے پھر کھانا قابوں میں نکالا جاتا ہے۔ طلائی اور نقرئی قابیں سُرخ کپڑوں میں، چینی اور تانبے کے ظروف سفید کپڑوں میں باندھ دیے جاتے ہیں اور میر بکاول ان کپڑوں پر اپنی مہر لگا کر ہر کھانے کا نام بستہ قابوں پر لکھ دیتا ہے۔
’باورچی خانہ کا منشی تمام کھانوں کی ایک فہرست تیار کرکے میر بکاول کی مہر کے بعد انہیں اندر روانہ کرتا ہے۔ کھانے کی قابیں بکاول، باورچی اور دوسرے ملازمین اُٹھا لیتے ہیں۔ دونوں اطراف میں چوبدار ساتھ ہوتے ہیں جو راہ رو کو کھانے کے پاس سے گزرنے نہیں دیتے۔ جب کھانے کی قابیں اندر پہنچ جاتی ہیں تو رکابدار طرح طرح کی روٹیاں، دہی اور اچار و لیموں و نیز سونٹھ، طرح طرح کی ترکاریاں اسی طرح میر بکاول کی مہر لگوانے کے بعد حرمِ شاہی میں روانہ کردیتے ہیں۔ اندرون قصر کے ملازم کھانا چکھ کر قابوں کو دسترخوان پر چنتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد جہاں پناہ خاصہ نوش فرماتے ہیں، میر بکاول ہر پل حاضر رہتا ہے اور غذا کے چند نیم پُخت احتیاط کے خیال سے ہر وقت تیار رکھتا ہے‘۔
اس کے بعد آئین اکبری میں مسالوں اور کچھ غذاؤں کی اقسام کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔ سلمیٰ حسین جو دہلی کی ماہر طباخ (کھانے پکانے کی ماہر) ہیں وہ لکھتی ہیں کہ ’ترکی، افغانی اور ایرانی کھانوں کے ساتھ اب ہندوستانی کھانے بھی مغل دسترخوان کی زینت بنے جہاں کھانوں میں زیرہ، دھنیا، ادرک، کالی مرچ، دارچینی، لونگ، سونف جیسے مصالحے استعمال ہوتے ہیں۔ پُرتگالیوں کی آمد کے ساتھ مغل دور کی آخر میں آلو اور مرچوں کا اضافہ ہوا اور نئے پکوان دسترخوان پر سجے‘۔
جشن نوروز قدیم ایرانی تہوار تھا جو بہار کی آمد کی علامت کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اس تہوار کا جشن 7 روز تک جاری رہتا تھا جبکہ مغل بادشاہت میں اس جشن کو بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ ہند کو آپ تہواروں کی زمین کہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ گرم خطہ ہونے کی وجہ سے یہاں شمال سے بہتے ہوئے دریا آتے اور ہزاروں نہروں کی صورت زمین کو جل تھل کردیتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمین پر جھیلوں، جنگلات اور نباتات کی کائنات بستی ہے۔ چونکہ انڈس اور گنگا ویلی یہاں کی قدیم ترین انسانی آبادیاں ہیں تو ابتدا سے ہی ان کو دریاؤں نے پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ ان کی آنکھوں نے نیلے پانی کی وسیع جھیلیں، ہریالی سے بھری وادیاں اور فصلیں دیکھی ہیں تو موسم، رنگوں اور پانی سے محبت تو ان کے خون میں بہتی ہے۔ اس لیے یہاں پورا سال تہوار ہی تہوار منائے جاتے تھے۔
مغل ٹھنڈے علاقوں سے آئے تھے۔ جن علاقوں میں دودھ جیسی سفید برف کی تہیں ہوں اور برف نقطہ انجماد کو پار کر لے، وہاں گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اُگتا ہے، تو ہریالی کہاں سے آتی۔ صدیوں کی سفید چادر پر چلتے وہ جب یہاں پہنچے اور حاکم بنے تو کوئی جشن اُن کے لیے چھوٹا نہیں تھا۔ اس لیے ہر جشن کو انہوں نے پورے جوش سے منایا۔
جشن نوروز کو اس لیے یہاں وسعت ملی کیونکہ جشن تولادان بھی اسی موسم میں ہوتا تھا۔ ایک تہوار میں دوسرا تہوار۔ اس میں نئے سکے ڈھالے جاتے۔ سُر سنگیت کے پروگرام ہوتے، جھنڈیاں جن میں رنگوں کی بہار آئی ہوتی وہ گلیوں اور بازاروں پر ہواؤں میں اُڑتی رہتیں۔ زبردست کھانے بنتے اور عام لوگوں کے لیے بھی خاص کھانے بنائے جاتے۔
مغل، یعنی جشن، خوراک اور جنگ۔ یہی 3 حقائق اتنے مضبوط حقائق ہیں کہ وقت اُن کو کبھی روند نہیں سکا ہے۔ پاک و ہند کی تاریخ ان 457 برسوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک ایسی تاریخ جس پر کام کرنے کے لیے ہزاروں موضوعات ہیں اور ان موضوعات پر لاکھوں صفحات تحریر کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
کبھی کبھار یہ بھی ہوتا کہ جشن نوروز اور جشن تولادان کے ساتھ عید بھی اکٹھی آجاتی ہے، پھر تو پورے ایک ڈیڑھ ماہ تک جشن ہی جشن۔ 1641ء میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب فرے منریک لاہور پہنچا تھا۔ وہ اتوار کا دن تھا اور تاریخ 10 فروری 1641ء (29 شوال 1050ھ) تھی۔ عید ہفتے کے دن 12 جنوری کو گزر چکی تھی اور شاہ جہاں کا 50واں شمسی جشنِ تولادان جاری تھا۔ منریک نے جشن نوروز بھی دیکھا تھا، جو 22 مارچ (9 ذی الحج، بروز جمعہ) کو ہوا تھا۔ جشن نوروز کی شروعات اور عید الاضحیٰ کا دن ساتھ تھا۔ مطلب یہ کہ مارچ تک بھی منریک لاہور میں ہی تھا اور منریک نے بادشاہ کا 52واں ’جشن تولادان‘ دیکھا جو جمعے کے دن 13 جولائی (4 ربیع الثانی 1051ھ) کو منعقد ہوا تھا۔ یہی وہ بڑے تہوار تھے جو منائے جاتے تھے۔
میں مغل بادشاہوں کی خوراک کی دیوانگی کے متعلق آپ کو بتاتا ہوں۔ وینس کے رہنے والے ’مانوچی‘ نے مغل بادشاہ کے قافلے کے ساتھ سفر کیا تھا، اگر آپ وہ پڑھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بادشاہ کیا ہوتا ہے۔ بادشاہ کے اس قافلے کے ساتھ ایک پورا شہر چلتا تھا مگر جہاں تک ہم بادشاہ کے باورچی خانے کی بات کریں تو ہمیں مانوچی بتاتے ہیں کہ ’شاہی باورچی سورج ڈوبتے رات کا کھانا کھانے کے بعد اُس سفر پر روانہ ہو جاتا جہاں اگلی صبح بادشاہ کی منزل ہوتی۔
’باورچی کے اس قافلے میں 50 سے زیادہ اونٹ ہوتے جن پر خوراک کا سامان لدا ہوتا، 50 کے قریب گائیں تازہ دودھ کے لیے، 200 حمال دسترخوان پر کھانا چننے کے لیے برتنوں کے ساتھ، باورچیوں کی ٹولی، خوراک کے لیے مخصوص پانی لے جانے والے مشک بردار، روشنی کے لیے مشعل بردار، کام اور صفائی کرنے والے یہ سب سپاہیوں کی نظرداری میں چلتے تھے اور سب اس لیےکہ کل صبح بادشاہ کو وقت پر ناشتہ مل سکے۔‘ کیا آپ اس ساری حقیقت کا تصور بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ہاں تو یہ ہمارے لیے یقیناً بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔
اکبری عہد کے بعد ہم عہد شاہ جہانی میں آتے ہیں جس کو میں پڑاؤ کا نام دیتا ہوں۔ مغل دور کے یہ انتہائی شاندار دن تھے خاص طور پر دسترخوان کے حوالے سے۔ آپ نے اگر پرتگیزی پادری ’فرے منریک‘ کے متعلق پڑھا ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ آصف خان کے سبب اسے شاہ جہاں کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کا موقع ملا تھا۔
ملا محمد صالح کمبوہ ہمیں ’عمل صالح‘ میں بتاتے ہیں کہ ’بادشاہ سلامت 20 اگست کو ممتاز محل کی بڑی بہن اور آصف خان کی بیٹی کے انتقال کی تعزیت کرنے ان کے محل گئے تھے۔ تعزیت کی اس دعوت میں منریک بھی شامل تھا۔ یہ شہنشاہِ ہند کی محبوب بیوی کی بہن اور شاہ جہاں کے بعد حکومت کے سب سے بڑے آدمی بلکہ ایک وزیراعظم جس کو بادشاہوں کی طرف سے کم سے کم 36 سے زیادہ القاب ملے تھے، اُس کی بیٹی کی تعزیت تھی۔
’شاہ جہاں نے رات کا کھانا بھی وہاں کھایا تھا اور بہت سارے نئے طعام دیکھ کر بادشاہ حیران بھی ہوگیا تھا۔ چونکہ پرتگیز مشنری سے آصف خان کی اچھی دوستی باشی تھی اس لیے اس دعوت میں کچھ پرتگیز کیک اور مٹھائیاں بھی بنی تھیں۔ شاہ جہاں کی ضیافت گھنٹوں تک چلتی رہتی تھی کیونکہ وہ بنی خوراک سے بھرپور مزہ لینا پسند کرتا تھا‘۔
سلمیٰ حسین ہمیں بتاتی ہیں کہ ’بادشاہ اکثر اپنی رانیوں اور لونڈیوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، مگر تہواروں کے موقعوں پر، درباریوں اور رئیسوں کے ساتھ کھانا کھاتے۔ روزانہ کا کھانا عام طور پر خواجہ سراؤں کے ذریعے پیش کیا جاتا تھا۔ مگر وہاں دسترخوان پر حکیم بھی ہوتے اور ہر چیز کو صحت کے حوالے سے دیکھ بھال کے امتحانات سے گزار کر پکایا جاتا تھا تاکہ بادشاہ سلامت کے لیے صحت کا کوئی مسئلہ نہ ہو‘۔
اس دور میں شاید کھانے بنانے کا جنون سر چڑھ کر بولتا تھا۔ شاہ جہاں کے زمانے میں، کھانوں کی تراکیب پر فارسی میں ایک کتاب لکھی گئی جس کو ’نسخہ شاہ جہانی‘ کا نام دیا گیا۔ اس میں 300 سے بھی زائد کھانے بنانے کی تراکیب درج ہیں۔ کھانا پکانے کے حوالے سے یہ انتہائی اہم کتاب ہے جس کا 1956ء میں اردو ترجمہ کرکے اُسے شائع کیا گیا اور 2021ء میں اس کا انگریزی میں ترجمہ ماہر طباخ، سلمیٰ حسین نے The Mughal Feast کے نام سے کیا ہے۔
اب میرے سامنے مُنشی فیض الدین دہلوی کی کتاب ’بزم آخر‘ موجود ہے جس کا پیش لفظ اشرف صبوحی دہلوی نے لکھا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’شاہ عالم ثانی بے چارہ جس کی حکومت کے لیے مشہور تھا کہ ’حکومتِ شاہ عالم، از دہلی تا پالم‘، غلام قادر سے آنکھیں نکلوا کر عدم آباد کا راستہ ٹٹول رہے ہیں۔ آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر جس کے پاس نہ تیموری لشکر تھا، نہ بابری شجاعت و شوکت، نہ اکبر کی صولت و جبروت، نہ شاہ جہانی سطوت و شان، پھر بھی بادشاہ تھا، چاہے نام کا ہی سہی۔ اور چونکہ آلِ تیمور کا خاتمہ اس پر ہوا اس لیے ہماری نگاہیں اُسی پر جمی ہیں‘۔
مُنشی فضل دین نے ان دونوں آخری مغل بادشاہوں کے ساتھ دہلی کے لال قلعے میں جو شب و روز گزارے تھے وہ اس کتاب میں درج ہیں۔ مغل بادشاہوں کے دسترخوان کی تو ایک طویل، رنگین اور شیرین دنیا ہے جہاں کھانوں کا خاص اہتمام ہوتا تھا اور بڑی مقدار میں ہوتا تھا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس طویل کتاب بزم آخر سے آپ کو عید کے دن اور اُس دن بننے والے کھانوں کا تھوڑا سا ذکر سُنوادیں۔
مُنشی فیض الدین دہلوی صاحب کہتے ہیں کہ ’یہ عید الاضحیٰ کا دن ہے، عیدگاہ کے اندر خیمہ کھڑا ہے، بیچوں بیچ ایک چبوترا بنا ہوا ہے جہاں بادشاہ کی مسند لگی ہے۔ ایک اونٹ بھی کھڑا ہے جس کی قربانی ہونی ہے۔ نماز کے بعد بادشاہ اونٹ کے پاس آئے، فراشوں نے ایک بڑی سی چادر بادشاہ اور اونٹ کے بیچ میں تان لی، اونٹ کی قربانی دی گئی اور بادشاہ لوگوں سے ملے، عید کے لگے خیمے میں عید کے قربانی والے جانور سے بنے کچھ کھانے نوش کیے۔ پھر دیوان خاص اور محل میں آئے کیونکہ عید کا اصل دربار تو یہی ہے۔ نذریں لیں اور اپنے خاص امرا کو چھوٹے جانوروں جیسے بھیڑ اور بکری کی صورت میں گوشت بھیجا‘۔
عید کے علاوہ بزم آخر میں اور بھی بہت سارے موسمی اور مذہبی تہواروں جیسے نوروز، رجب، شب برات، رمضان، عیدالفطر، دسہرہ، دیوالی، ہولی وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ان تمام تہواروں کی تان آ کر دسترخوان پر چُنے گئے کھانوں پر ٹوٹتی ہے۔ تو اس لیے میں یہاں چیدہ چیدہ نام تحریر کرتا ہوں کیونکہ اگر تمام نام تحریر کیے تو طوالت کا خدشہ ہے۔ بس آپ کچھ نام سُن لیں اور تصور کریں کہ اُس وقت دسترخوان کے اطراف میں کیا ماحول ہوتا ہوگا اور خوراک کی اشتہا انگیز خوشبو کیا کیا رنگ و رونق دکھاتی ہوگی۔
چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، بیسنی اور خمیری روٹی، نان، شیرمال، کلچہ، یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی و لال پلاؤ، مرغ و انناس پلاؤ، بکرے کا پلاؤ، سویاں، فرنی، کھیر، بادام کی کھیر، یاقوتی، بادام کا دلمہ، سموسے سلونے میٹھے، قورمہ، قلیہ، ہرن کا قورمہ، قورمہ مرغ، مچھلی، پنیر کی چٹنی، دہی بڑے، بینگن کا بھرتہ، بادشاہ پسند کریلے، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، خطائی و حسینی کباب، گاجر، کدو، ملائی، بادام، پستے کا حلوا، آم، سیب، ترنج، کریلے، رنگترے، لیموں، انناس کا مربا، گیہوں کی بالیں مٹھائی، سوہن گری کا حلوا ، گوندے کا حلوہ، موتی چور کے لڈو، مونگ، بادام، پستے، ملائی کے، مونگ کے لوازمات، دودھ، پستے، بادام، جامن، رنگترے، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ مغزی، امرتی، جلیبی، برفی پھینی، قلاقند، بالو شاہی وغیرہ۔
یہ سب چیزیں قابوں، طشتریوں، رکابیوں، پیالوں، پیالیوں میں قرینے قرینے سے چُنی گئیں، بیچ میں سفل دان رکھ دیے، اور نعمت خانہ کھڑا کردیا تاکہ مکھیاں دسترخوان پر نہ آئیں۔ مشک، زعفران، کیوڑے کی بو سے تمام مکان مہک رہا ہے، چاندی کے ورقوں سے دسترخوان جگمگا رہا ہے’۔
بقول سلمیٰ یوسف حسین کے ’ہر پکوان کی آمد ایک تقریب تھی اور تاریخ اس وقت کی شان و شوکت کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ذائقے بھی جو ان دنوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخوں جیسے ’نسخہ شاہ جہانی‘ کے صفحات میں رہ گئے ہیں۔ نہ صرف شہنشاہ کے شاہی دسترخوان بلکہ شہر کے بازار بھی مختلف کبابوں کے دھوئیں سے لبریز تھے اور ماحول نہاری، حلیم، قورمے اور قلیوں کی خوشبو سے معطر تھا۔ روٹیوں کی صفیں شاندار تھیں، تہوار کے مواقع باقر خانی، کلچوں اور شیرمالوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتے تھے، شربتوں کے کٹورے اور قلفی کے مٹکوں نے اس شاندار منظرنامے میں رنگ بھردیے‘۔
ہم نے کوشش ضرور کی ہے کہ ہمارے پاس جو 4 کتابیں موجود تھیں، اُن کا لُب لباب آپ تک پہنچا سکیں۔ اگر آپ تھوڑا غور سے سوچیں تو مغل بادشاہت کے زمانے ان کتابوں کے گرد ہی گھومتے ہیں، ہاں البتہ موضوعات ضرور الگ ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس تحریر نے عید کی ان خوشیوں میں گزرے زمانوں کے متعلق کچھ ان دیکھے اور ان سُنے حقائق سے آپ کو ضرور روشناس کروایا ہوگا۔
حوالہ جات
- ’تزک تیموری‘۔ ترجمہ: سید ابوالہاشم ندوی۔ 2017ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’آئین اکبری‘ ۔ علامہ ابوالفضل ۔ 2015ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’نسخہ شاہ جہانی‘۔ترجمہ: سید محمد فیض اللہ۔ 1956ء۔ مدراس
- ’بزم آخر‘۔مُنشی فیض الدین دہلوی۔ 1885ء۔ دہلی