صدر سے مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا ترمیمی بل سینیٹ سے منظور
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صدر سے مشاورت کیے بغیر یکطرفہ طور پر انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کا اختیار دینے کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کا بل سینیٹ میں کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
انتخابات (ترمیمی) بل 2023 جماعت اسلامی اور اپوزیشن پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کے احتجاج کے دوران وزیر مملکت شہادت اعوان نے پیش کیا۔
قانون سازی کے مقاصد اور وجوہات کے بیان کے مطابق آئین الیکشن کمیشن آف پاکستان کی یہ ذمہ داری تصور کرتا ہے کہ وہ ایمانداری، منصفانہ انداز اور قانون کے مطابق انتخابات کرائے اور اس کا انعقاد کرے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات کے تحت انتظامی اور فعال خود مختاری حاصل ہے جو کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی اپنی بنیادی ذمہ داری کو پورا کرنے کے حوالے سے کمیشن کو سہولت فراہم کرتی ہے۔
اس نے مزید کہا کہ کمیشن کو مزید مضبوط بنانے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 (1) اور 58 (1) میں ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات کے لیے اپنے طور پر انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کی اجازت دی جائے۔
ترامیم میں کہا گیا ہے کہ:
- سیکشن 57 (1): کمیشن عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان سرکاری گزٹ میں نوٹی فکیشن کے ذریعے کرے گا اور حلقوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا مطالبہ کرے گا۔
- سیکشن 58: سیکشن 57 میں موجود کسی بھی چیز کے علاوہ کمیشن اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت نوٹی فکیشن کے اجرا کے بعد کسی بھی وقت الیکشن کے مختلف مراحل کے لیے اس نوٹی فکیشن میں اعلان کردہ انتخابی پروگرام میں ایسی تبدیلیاں کر سکتا ہے یا جاری کر سکتا ہے یا اس ایکٹ کے مقاصد کے لیے ایک نیا انتخابی پروگرام جس میں رائے شماری کی تازہ تاریخ (تاریخوں) کے ساتھ تحریری طور پر ریکارڈ کیا جانا ضروری ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی مجوزہ ترامیم کا جائزہ لیا اور سفارش کی کہ وفاقی حکومت قانون سازی کا عمل شروع کرے۔
قبل ازیں سینیٹ اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ انتخابات کی تاریخ کے انتخاب کا حق 1973 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دیا گیا تھا، لیکن ضیاالحق نے ایک ترمیم کے ذریعے صدر کو یہ حق دیا اور ساتھ ساتھ باور کرایا کہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی اس قانون کے حق میں منظوری دی تھی۔
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین سب سے برتر ہے، ترامیم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کردار کو مزید فعال بنائیں گی اور انتخابی شیڈول میں بھی تبدیلیاں ممکن بنائیں گی۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ یہ ترمیم تمام ابہام کو دور کرنے کے لیے لائی جارہی ہے اور جب آئین اس حوالے سے خاموش تھا تو پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل تھا۔
دوسری جانب مجوزہ قانون پر اعتراض اٹھاتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے کہا کہ قانون سازی صرف آئین کے تحت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین انتخابات کی تاریخ کے بارے میں بالکل واضح ہے اور یہ صدر اور گورنر دونوں کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے۔
شہزاد وسیم نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو قانون کے تحت دیے گئے اختیارات سے تجاوز کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا اور تجویز دی کہ چیزوں کو پیچیدہ کرنے کے بجائے سادہ قانون سازی کی جائے۔
بعد ازاں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل ایوان میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا اور اسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
اراکین اسمبلی کی نااہلی
آج سینیٹ میں جو بل پیش کیے گئے ان میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (قابلیت اور نااہلی) میں ترمیم بھی شامل ہے۔
اس ترمیم کے بعد 5 سال سے زیادہ نااہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اس ایکٹ کی کسی دوسری شق میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود اس وقت نافذ العمل کوئی دوسرا قانون اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے فیصلے، حکم یا حکم نامے، آئین کے آرٹیکل 62 کی شق (1) کے پیراگراف (ایف) کے تحت منتخب کیے جانے والے شخص کی نااہلی یا پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے برقرار رہنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی اور اس طرح اعلان قانون کے مناسب عمل کے تابع ہوگا۔
ترمیم میں مزید کہا گیا کہ نااہلی اور اہلیت کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت وہی ہونا چاہیے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اور 64 کی متعلقہ دفعات میں خاص طور پر دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون میں جہاں کہیں بھی اس حوالے سے کوئی طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تجاویز
اس سال کے اوائل میں عدالتی کی جانب سے رٹ کو کمزور کرنے کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجنے پر الیکشن کمیشن نے حال ہی میں نافذ کردہ قانون کی تجویز پیش کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو خطوط لکھے تھے جس میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 (1) اور 58 میں ترامیم کی تجویز دی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے سیکریٹری عمر حامد خان کے دستخط کے حامل یہ خطوط وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری برائے پارلیمانی امور کو بھی بھیجے گئے تھے۔
خطوط میں کہا گیا تھا کہ 1976 کے اصل (عوامی نمائندگی) ایکٹ کی دفعہ 11 نے کمیشن کو کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر یکطرفہ طور پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار دیا، سیکشن میں ترمیم آرڈیننس نمبر 11 (12 جنوری 1985) کے ذریعے کی گئی تھی جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ صدر کا کردار ایک شخص کی خواہش پر انتخابات کے انعقاد کے لیے بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی کی تحلیل یا مدت ختم ہونے پر قومی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کے صدر کے کردار کی کوئی آئینی شق تائید نہیں کرتی۔
خطوط میں مزید کہا گیا تھا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 11 میں کی گئی ترمیم کو الیکشنز ایکٹ کے سیکشن 57 (1) میں بھی نقل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ لہٰذا، ایکٹ کا سیکشن 57 (1) انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے میں صدر کے کردار کی حد تک آئین کی روح اور آرٹیکل 222 کی شق کے خلاف ہے کیونکہ اس نے الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 218 (3) اور 219 کے تحت دیے گئے اختیارات کو ختم کر دیا ہے۔
خطوط میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ ان ترامیم کے نفاذ کے نتیجے میں آرٹیکل 218 (3) کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے پاس موجود آئینی مینڈیٹ کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔
اس کے بعد 13 اپریل کو چیئرمین سینیٹ نے الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے چار چار اراکین شامل تھے، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے دونوں اراکین اعظم نذیر تارڑ اور وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی کمیٹی کے سابق اراکین تھے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر، آزاد سینیٹر دلاور خان، پی ٹی آئی کے منحرف ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ، وزیر تجارت و پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر، مسلم لیگ (ن) کے محسن نواز رانجھا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے صابر قائم خانی بھی کمیٹی کا حصہ تھے۔