اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
برٹن کا قافلہ شاید صبح کو جلدی نکلا تھا اس لیے کوٹری بھی جلدی پہنچ گیا۔ اس زمانے میں اس چھوٹے سے شہر کے گرد ایک حفاظتی قلعہ تھا جس کے اندر یہ شہر آباد تھا۔ برٹن کو دریا کے کنارے کھجوروں کے درختوں کے گھنے جھُنڈ نظر آئے جو ایک جنگل کا نظارہ پیش کررہے تھے۔
وہ قلعے کے متعلق لکھتا ہے کہ ’جنگی سامان رکھنے اور اس شہر کے تحفظ کے لیے ایک قلعہ ہے جس کے چبوترے گول ہیں مگر قلعے کے تحفظ کے لیے کوئی خندق نہیں بنی ہوئی۔ صفائی کا یہاں نام و نشان نہیں ہے۔ یہاں کی تعمیرات مٹی سے کی گئی ہیں اور چھتیں کھجوروں کے جھاڑوں سے بند کی گئی ہیں۔ بازار ہر وقت لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں‘۔
برٹن کوٹری پہنچا تو کمپنی سرکار کے رہائشی مقام جس کو ’مسافر بنگلو‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا، شاید وہاں اس وقت کچھ تعمیر نہیں ہوا تھا اس لیے وہاں بھی برٹن کو ٹینٹ میں ہی رہنا پڑا۔ البتہ قرب و جوار میں کمپنی سرکار کی دوسری تعمیرات ضرور تھیں جیسے لائبریری، کھانا کھانے کے لیے میز اور شاید ڈانس کے لیے ایک ہال بھی تھا۔
برٹن اپنا ٹینٹ وہاں لگنے کے بعد جو منظرنامہ تحریر کرتا ہے، اتنا جاندار اور شاندار ہے کہ میں وہ آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’قافلے کے ملازموں نے ٹینٹ لگا دیا ہے، وہ سمجھ رہے ہیں کہ ٹینٹ لگانے کے بعد اب ان کے پاس اور کوئی کام نہیں ہے اس لیے وہ بازار جانے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک باورچی ہے جو ناشتہ تیار کرنے کے کام میں مصروف ہے، ایک سَائیس ہے جو گھوڑوں کو کھرکھرا لگا رہا ہے۔
’ہمارے لوگ اگر بازار گئے تو مجھے پکا یقین ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں دوپہر سے پہلے واپس نہیں لوٹیں گے۔ اگر جلدی لوٹ کر آئے بھی تو اپنی جگہ پر پہنچ کر ایسا اُدھم مچائیں گے کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ ان کی ایک دوسرے سے لڑائی اور اونچی آواز میں ایک دوسرے کو گالیاں دینا معمول ہے۔ مگر یہ سب چیخ و پُکار کبھی ہاتھا پائی تک نہیں پہنچتی۔ شام کو وہ پھر اکٹھا بیٹھ کر باتیں کررہے ہوں گے اور تماک پھونک رہے ہوں گے‘۔
اُن دنوں میں یعنی 1844ء میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوٹری میں چوریاں کچھ زیادہ ہوتی تھیں۔ برٹن اپنے ملازموں کے شہر جانے کے بعد ٹینٹ کو اس لیے اکیلا چھوڑ کر شہر نہیں جارہا تھا کیونکہ اُسے وہاں سے چوری ہونے کا ڈر تھا۔ دوسرے دن جب برٹن کوٹری شہر کو دیکھنے کے لیے نکلا تو اُسے چوری کے الزام میں پکڑے جانے والا شیدی نظر آیا جس پر چوری کی رپورٹ درج کی گئی تھی اور اُس کے جرم کا فیصلہ کرنے کے لیے اُسے ڈپٹی کلیکٹر اور مجسٹریٹ کی آفس لے جایا جارہا تھا۔
اس کے کیے گئے گناہ کا فیصلہ بہت جلدی ہوگیا۔ برٹن کوٹری کے بازار میں ہی تھا تب اس مجرم پر گناہ ثابت ہوا اور اُسے سزا دینے کے لیے شہر میں مقرر کی گئی جگہ پر لے جایا گیا۔ اب شیدی کو چوری کے بدلے جو سزا دی گئی تھی وہ دیکھنے کے لیے برٹن بھی وہاں پہنچا۔ وہاں سزا کس طرح دی گئی اور ماحول کیسا تھا وہ برٹن کی تحریر سے دیکھ لیتے ہیں۔
’یہ آدمی افریقہ کا شیدی ہے جو یہاں غلام کے طور پر خرید کر لایا گیا ہوگا۔ یہاں اس سے ایک نوکر کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ وہ ایک ہٹا کٹا اور مضبوط جسم کا مالک اور سیاہ اور موٹی چمڑی رکھنے والا انسان ہے۔ اسے زمین میں گاڑی گئی موٹی مضبوط لکڑی سے باندھ دیا گیا ہے ساتھ میں اس کی ٹانگیں اور ہاتھ بھی باندھے گئے ہیں کہ کوڑے لگنے پر وہ زیادہ اُدھم نہ مچائے۔ کوڑے لگانے والا اپنی پوری طاقت سے اس کو سزا کے طور پر کوڑے سے مارنا شروع کرتا ہے۔
’ایک انگریز جو انتظامیہ کا آدمی ہے وہ گھوڑے پر بیٹھا ہے اس کے سر پر کیپ اور منہ میں سگار ہے اور وہ اس سزا کے عمل کی نگرانی کررہا ہے اور ساتھ میں سزا دینے والے کو مُسلسل ہدایات بھی دے رہا ہے۔ مگر اس سزا کی اس کالی چمڑی والے کو کوئی پروا نہیں ہے۔ اس کے کچھ دوست اسٹیمروں پر کوئلے لادنے کا کام کرتے ہیں وہ بھی آگئے ہیں اور اس سے ہنسی مذاق کر رہے ہیں‘۔
برٹن نے اپنے اس پہلے سفر میں کوٹری کے متعلق انتہائی کم معلومات تحریر کی ہے۔ اس لیے میں سوچتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کیا میں وہ معلومات یہاں تحریر کروں جو مجھے 1844ء کے اُن دنوں کے متعلق مل سکتی ہے۔ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو شاید یہ مناسب نہ لگے اور ساتھ ہی یہ موضوع کے ساتھ بھی ناانصافی ہو۔ مگر دوسرے سفر میں برٹن نے کوٹری کے متعلق بہت کچھ تحریر کیا ہے۔
شاید اسے اپنی پہلی کتاب میں یہ تشنگی ضرور محسوس ہوئی ہوگی اس لیے اس کو دور کرنے کے لیے اس نے شاندار حقائق تحریر کیے ہیں۔ بلکہ پہلے اور دوسرے سفر کے درمیانی برسوں کے ماہ و سال کی گردشوں کو وہ بھولا نہیں ہے۔ تو ہمیں وہ پڑھنے کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔
کچھ دن کوٹری میں رہنے کے بعد وہ اب کوٹری سے جانا چاہتا ہے۔ اور اس لیے وہ اس تیاری میں لگا ہوا ہے۔ مگر اس سے پہلے وہ کوٹری کے سامنے دریا کے اس پار جہاں بالکل سامنے ’دیوان گدومل‘ کی بندرگاہ ہے وہاں جانا چاہتا ہے اور وہاں سے پھر وہ حیدرآباد گھومنے کا شوق پورا کرنا چاہتا ہے۔
مگر چونکہ حیدرآباد ہمارے اس موضوع میں شامل نہیں ہے تو ہم حیدرآباد برٹن صاحب کو اکیلے جانے دیتے ہیں تاکہ وہ گھوم پھر آئے۔ البتہ میں آپ کو دیوان گدومل کے بندر کے متعلق مختصراً ضرور بتانا چاہوں گا کیونکہ کوٹری اور اس بندر کی آپس میں پرانی دوستی ہے۔ نہ گدوبندر کے سوا کوٹری بندر کی کتھا مکمل ہوگی اور نہ کوٹری بندر کے سوا گدوبندر کی کتھا سانس لے سکتی ہے۔
دیوان گدو مل، ہمیں کلہوڑا دور حکومت میں میاں نور محمد کلہوڑو (وفات: 1753ء) ملتا ہے اور میاں غلام شاہ کلہوڑو کے زمانے میں غلام شاہ کے دربار کے پُراعتماد فرد کے طور پر نظر آتا ہے۔ تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ میاں غلام شاہ کا وکیل دیوان گدو مل خدا آباد سے کشتیوں میں سوار ہوکر حیدرآباد کے مغرب میں جہاں آکر اُترا وہیں پر اس نے اپنی رہائش اختیار کی اور اس طرح ’گدو جو ٹنڈو‘ (یعنی گدو کی بسائی ہوئی بستی) کی بنیاد پڑی اور یہاں جو گھاٹ تھا اُس کو ترجیح دے کر کچھ وسیع کردیا گیا اور آگے چل کر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر یہ ’گدو بندر‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
ناموں کا بھی اپنا سحر اور اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ یہ جس جگہ یا فرد پر ٹھنڈی چاندنی کی طرح برس جائیں وہاں اپنی جڑیں اتنی گہرائی تک لے جاتے ہیں کہ وقت کا چاہے کتنا ہی بڑا طوفان کیوں نہ آئے، وہ اسباب جن کی وجہ سے یہ نام پڑتے ہیں چاہے اُن کے وجود ختم ہوجائیں مگر ناموں کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ نسل در نسل وہ لوگوں کی زبان اور دماغ میں تازہ دم رہتی ہیں۔ دیوان گدو مل کی اس بندرگاہ کا اب کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ دیوان نے یہ جہان کب چھوڑا مگر یہ ’نام‘ اپنے آپ کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
ہیوز، ’سندھ گزیٹیئر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’حیدرآباد اور گدوبندر کے راستے کے بیچ میں ’سودائی آشرم‘ بنا ہوا ہے جو 1871ء میں مکمل ہوا۔ اس میں بہت سارے وارڈز ہیں جن میں 138 مریض رکھنے کی گنجائش ہے۔ 1874ء میں یہاں ایک مریض پر خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ 93 روپے آٹھ آنے لگایا گیا تھا۔ یہ آشرم (جو اب ’کاؤس جی انسٹیٹیوٹ آف سائکٹری‘ گدوبندر مینٹل ہاسپیٹل کے نام سے کام کررہا ہے) ایک پارسی، سر کاؤس جی جہانگیر نے تعمیر کروایا تھا اور اس کی تعمیر کے لیے 50 ہزار روپے دیے تھے۔ پھر رقم کم پڑنے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے 8 ہزار روپے دیے گئے تھے اور اس طرح 58 ہزار روپوں کی لاگت سے یہ اسپتال مکمل ہوا‘۔
برٹن صاحب کے قافلے کے اونٹ اور گھوڑے دریائے سندھ کے اُس طرف یعنی گدو کے بندر پر پہنچ چکے ہیں، اب یہ قافلہ شمال کی جانب اپنا سفر جاری رکھے گا۔ اور شکارپور تک جائے گا۔ تو فی الوقت ہم اس قافلے سے جُدا ہوتے ہیں۔ البتہ بہ وقت ضرورت ہم برٹن سے ضرور مدد لیتے رہیں گے۔
ہم دوبارہ برٹن صاحب کے دوسرے سفر یعنی 1877ء میں بھی اس سے یہاں اس جگہ یعنی کوٹری میں ہی ملیں گے۔ ان 30 برسوں میں گوروں کی سرکار نے جو تعمیراتی کام کیے اُن میں دریا میں سفر کے لیے اسٹیمروں کا استعمال اور دوسرا ریلوے لائنز بچھانے کا کام بھی انتہائی اہم تھا۔ اب اس بات کو اس نظر سے بالکل بھی نہ دیکھا جائے کہ 1843ء سے پہلے یہاں کُچھ بھی نہیں تھا اور سب کچھ گوروں نے ہی بنایا۔
یہاں آب پاشی کا اپنا ایک نظام تھا جس سے لاکھوں ایکڑ زمین پر زراعت ہوتی تھی۔ دریائے سندھ اور اُس کی نہروں پر کشتیوں اور راستوں پر سے قافلوں کی صورت میں بیوپار ہوتا تھا۔ یہ قافلے اونٹوں اور بیل گاڑیوں کی صورت میں ہوتے تھے۔ بلکہ سندھ کے تالپور حکمرانوں کے پاس فقط کراچی میں 30 کے قریب سمندری جہاز اور 100 کے قریب بیوپاری کشتیاں ہوا کرتی تھیں۔ تو بہ ہرحال ایک نظام موجود تھا۔
کمپنی حکومت کو سمجھنے کے لیے یہ زیادہ آسان ہوگا کہ ہم اُسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی سمجھ لیں جو اپنا سرمایہ اس لیے لگاتی ہے کہ اسے دو گنا اور چو گنا فائدہ ہو۔ ان کا واسطہ فقط منافع سے ہے۔ مقامی وسائل اگر برباد ہوتے ہوں تو ہوں، ان کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ ایسے زیادہ سرمایہ لگانے والی کمپنیوں کے اندر کہیں کسی کونے میں اپنی دھرتی نہ ہونے کے خوف کا سنپولا ہر وقت موجود ہوتا ہے کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی انہیں یہاں سے کھدیڑا جاسکتا ہے۔
حالات اُس سوکھی گھاس کی طرح ہوتے ہیں جن کو فقط ایک معمولی سی چنگاری دکھانے کی دیر ہوتی ہے اور اس کے بعد جو آگ پھیلتی ہے اُسے روکا نہیں جاسکتا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھار چنگاری کو بنتے بنتے برسوں لگ جاتے ہیں۔ اگر آپ کمپنی سرکار کا ریکارڈ دیکھیں تو آپ کو کیے گئے اخراجات اور اس کے بدلے ملنے والے خساروں یا فوائد کی جنگ نظر آئے گی۔
میرے خیال میں انڈس فلوٹیلا اور سندھ ریلوے پر بات کرنے سے پہلے ہم کمپنی سرکار کے کسی کارندے سے اس کی زبانی اُن دنوں کے حالات سن لیں تو گزرے زمانوں کی تصویر کچھ زیادہ واضح ہوجائے گی۔ بلکہ برٹن صاحب سے ہی پوچھ لیتے ہیں اور وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’سندھ کی ترقی کا ضامن دریائے سندھ ہے اور ماضی میں بھی تھا۔ اس وقت (1844ء) تک اس دریا نے دوستوں اور دشمنوں کے ہاتھوں بہت ساری تکلیفیں دیکھی ہیں۔ اس دریا پر پہلا تحقیقی کام لیفٹیننٹ الیگزینڈر برنس (1805ء۔ 1841ء) نے کیا تھا، جس کا کہنا تھا کہ اس دریا سے بہت فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
دریائے سندھ میں سامان کے نقل و حمل کے لیے انگلینڈ میں ’انڈس نیویگیشن کمپنی‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا اور کمپنی نے اپنے نمائندے بمبئی بھیجے اور آزمائشی بنیادوں پر سروس شروع کی گئی مگر وہ اتنی کامیاب نہ ہوسکی جتنی اُمید کی گئی تھی۔ مقامی بیوپاریوں نے بھی اس کمپنی کی آمدورفت کی شدید مخالفت کی کیوں کہ وہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ مقامی لوگوں کی جو کشتیاں اور جہاز یہ کام صدیوں سے کررہے ہیں اُن کو بے روزگار کرکے کمپنی کے لیے جگہ خالی کردی جائے۔ مگر ترقی کسی بھی شکل میں ہو اُسے شاید روکنا ناممکن ہے’۔
1835ء میں دریائے سندھ میں پہلی آگبوٹ (اسٹیم بوٹ) چلی، اسی آگبوٹ کا نام ’انڈس‘ تھا۔ لوہے کا بنا ایک دیو ہیکل جہاز کیسے سیٹیاں بجاتا اور دھواں چھوڑتا پانی کی سطح پر بڑی تیزی سے تیرتا جاتا ہے یہ سندھ کے حاکم میر صاحبان کے لیے انتہائی تجسس سے بھرے لمحات تھے اور وہ اسے دیکھنے کے لیے قلعے سے باہر دریا کے کنارے تک آئے۔ دو اور اسٹیمرز ’اسیریا‘ اور ’کانکرر‘ کو 1839ء میں دریا میں اُتارا گیا۔
یہ وہی زمانہ تھا جب کمپنی سرکار نے سیاسی اور نفسیاتی کھیل کھیل کر سندھ کے حاکموں کو مجبوری کے جال میں ایسا جکڑا کہ وہ گوروں کے ہر عہدنامے پر دستخط کر دیتے تھے۔ پانی پر بھاپ کی طاقت پر چلنے والے یہ جہاز یقیناً خوبصورت تھے اور مستی بھرے دریائے سندھ کی لہروں پر ایسے چلتے تھے جیسے پانی پر حکومت کرتے ہوں۔ پھر انہیں اسٹیمروں نے بمبئی سے بھیجی گئی کمپنی سرکار کی فوج کو سکھر تک پہنچانے میں بھی بڑی مدد فراہم کی تاکہ وہ افغانستان میں لڑتی ہوئی اُس کمپنی سرکار کی فوج کی مدد کرسکیں جو افغانستان میں مقامی لوگوں سے لڑ رہی تھی اور مسلسل ہار رہی تھی۔
اگر آپ ان صفحات پر ڈھونڈیں تو کمپنی کی اس ناکام ترین لڑائی میں ہم آپ کے ساتھ افغانستان کی اس جنگ میں شامل رہے۔ جب قدیم خراسان کے شمال مغربی حصے (افغانستان) کو کمپنی کی فوج جیت نہ سکی تو اُس ناکامی کا غصہ سندھ پر نکلا اور سندھ فتح کرنے کے لیے ’پلینٹ‘ اور ’سیٹیلائٹ‘ نامی آگبوٹوں کو دریائے سندھ پر چلایا گیا جو سندھ کو فتح کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوئے۔
1847ء میں ’انڈس نیوی فلوٹیلا‘ کے پاس 10 اسٹیمر تھے۔ ان کے پاس کچھ کشتیاں بھی تھیں جو اکثر فوجیوں کو لانے لے جانے، سرکاری گوداموں کے لیے سامان کی ترسیل، کراچی اور ملتان کے درمیان خزانے کے پہنچانے اور لے جانے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کی سروس آزمائشی بنیادوں پر 1846ء میں شروع کی گئی تھی مگر انڈس فلوٹیلا میں شامل اسٹیمرز کو سندھو دریا جیسے مشکل ترین بہاؤ میں چلانا ناقص سمجھا گیا۔ انڈس فلوٹیلا کا مرکز کوٹری تھا جہاں انڈیا نیوی کا آفیسر اپنے ماتحت عملے کے ساتھ رہتا تھا۔
انڈس فلوٹیلا کے جہازوں کی مرمت کوٹری میں ہوتی تھی اس لیے وہاں ایک فیکٹری کے ساتھ اُس کے حکام اور کام کرنے والوں کے لیے عمارات تعمیر کی گئی تھیں اور ساتھ میں علاج کے لیے اسپتال اور وائین شاپ بھی تھی۔ مگر اس کا سینٹرل پوائنٹ یعنی مرکزی جنکشن ’جھرک‘ تھا۔ اور جب تک ہم جھرک کی گلیاں نہ دیکھیں اور وہاں کے انڈس فلوٹیلا کے اہم مرکز کے متعلق نہیں جانیں گے تب تک سندھو دریا پر حکومت کرنے والے ان آگبوٹوں کے کمال و زوال کی کہانی ہمیں سمجھ میں نہیں آئے گی۔
وقت نے جھرک کو خوبصورت اور پُرفضا محل وقوع کی وجہ سے اہمیت دی۔ برطانوی فوج کے لیے جھرک ایک ہیڈکوارٹر کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی طرح جھرک جو مقامی طور پر ایک قدیم بندر تھا، انگریزوں کی یہاں چھاؤنی بننے سے اُس کی اہمیت و افادیت میں اضافہ ہوا۔
یہاں کی بندرگاہ کی اہمیت اور افادیت سے متعلق ’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ لکھتا ہے کہ ’1859ء میں برطانوی حکومت کی کمپنی ’انڈس اسٹیم فلوٹیلا‘ نے دریائے سندھ پر سامان اُٹھانے کے لیے آمدورفت شروع کی، مقامی طور پر بادبانی کشتیوں کی آمد ورفت کا سلسلہ یہاں صدیوں سے جاری تھا مگر جدید جہاز رانی کی ابتدا انگریزوں کے زمانے میں ہوئی۔ انہوں نے 1835ء میں ’انڈس‘ نام کا ایک بڑا جہاز چلایا تھا۔ 1852ء میں کراچی سے کوٹری تک ایک چھوٹا جہاز چلتا تھا جو ڈاک لانے اور لے جانے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
’انڈس اسٹیم فلوٹیلا کمپنی نے اپنے اسٹیمروں کی سروس کے لیے جھرک میں ایک بندرگاہ تعمیر کروائی۔ یہی وجہ ہے کہ جھرک نے بہت تیزی سے ترقی کی۔ یہاں سے چلنے والے جہاز لکڑی کے ایندھن سے چلتے تھے اور یہ ملتان، اٹک سے ہوکر کالا باغ تک جاتے تھے۔ اسی برس کراچی ہاربر سے گِزری تک ریلوے کی پٹری بچھائی گئی جس کے بعد سامان کیماڑی سے گزری تک ریل پر آتا اور پھر کشتیوں کے ذریعے جھرک تک پہنچایا جاتا تھا‘۔
محترم حسن علی آفندی (1830ء – 1895ء) جنہوں نے 1885ء میں ’سندھ مدرستہ الاسلام‘ کی بنیاد رکھی، وہ انڈس فلوٹیلا کمپنی کے اس جھرک والے مرکزی آفس میں ملازم تھے۔ یہاں سے اسٹیمرز کو لکڑی بھی فراہم کی جاتی تھی، ساتھ میں یہ ریکارڈ بھی یہاں رکھا جاتا کہ کتنے ٹن لکڑی بندر پر آئی اور کس اسٹیمر کو کتنے ٹن لکڑی دی گئی۔ اسٹیمرز کے آنے جانے کا ریکارڈ، یہ سب مرکزی آفس میں بیٹھے حسن علی آفندی کی ذمہ داری تھی۔ اسی لیے جھرک کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ علم سے شدید محبت کرنے والے حسن علی آفندی کے کئی شب و روز اس چھوٹی سی شاندار بستی میں گزرے۔
1861ء میں کراچی سے کوٹری تک ریلوے لائن بچھائی گئی اور سامان ریلوے پر جانے لگا تو پانی والے اسٹیمرز کی سروس پر منفی اثر پڑا۔ 1862ء تک اس کمپنی کی اٹک تک سروس جاری رہی اور اسی برس انڈس نیوی کو ختم کرکے اس کے دونوں جہاز انڈس فلوٹیلا کمپنی کے حوالے کردیے گئے۔ انڈس فلوٹیلا کے پاس اُن دنوں 9 اسٹیمرز، کچھ بندرگاہ پر جہازوں کو کھینچنے والی کشتیاں اور 25 سامان اُٹھانے والی کشتیاں تھیں۔ اور ایک نئے جذبے سے کمپنی نے اپنا کام نئے سرے سے شروع کیا۔
1869ء میں اسٹیمروں کی مرمت کے لیے ایک فلوٹنگ گودی (Floating Wharf) کوٹری میں بنوائی گئی جو لمبائی میں 300 فٹ اور چوڑائی میں 80 فٹ تھی۔ اس وجہ سے آسانی یہ ہوئی کہ اسٹیمر جہاں کھڑا ہوتا چاہے دریا کے اس کنارے یا اُس کنارے گودی کو وہاں تک لے جایا جا سکتا تھا اور مرمت میں وقت کم لگتا اور آسانی رہتی۔
میرے پاس 13 برس یعنی 1862ء سے 1874ء کا ریکارڈ موجود ہے جس میں سفر پر آئے اخراجات اور بچت دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ کُل مسافروں کا تعداد بھی ہے کہ انڈس فلوٹیلا کے آگبوٹوں میں درجہ اول، درجہ دوئم اور درجہ سوئم میں کتنے لوگوں نے سفر کیا جو میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا۔
سامان ٹنوں میں: 109.528۔
وصولی: 10 لاکھ 88 ہزار 924 روپے
خرچہ: 81 لاکھ 99 ہزار 128 روپے
مسافر کی تعداد
درجہ اول: 3 ہزار 584
درجہ دوئم: 26 ہزار 363
درجہ سوئم: 92 ہزار 134
سفر کرنے والے مسافروں کی مجموعی تعداد: ایک لاکھ 22 ہزار 81
مگر وقت اُس بہتی ندی کی طرح ہے جو کبھی ایک جیسا نہیں رہتا بلکہ اس وسیع دنیا میں ایک جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی پھلی میں مٹر کے دو دانے بھی ایک جیسے کبھی نہیں ہوسکتے۔ وقت نے کروٹ بدلی اور وہ جہاز جو دریا پر بھاپ اُڑاتے سفر کرتے اور بادبانوں کی کشتیوں کے ساتھ سفر کرتے اور منظرناموں میں خوبصورتی بھر دیتے تھے، اُنہیں روک کر زنگ لگنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ عروج کی کوکھ سے زوال کے تُخم نے جنم لے ہی لیا اور آخر 1883ء میں اس کمپنی کو بند کردیا گیا۔
مگر وقت نے اس زوال سے کمال کی ایک نئی کہانی کی شروعات ہوئی جس نے ترقی کو یقیناً ایک نئی بنیاد فراہم کی۔ ترقی کی اس راہ پر سفر کرنے کے لیے ہم جلد ہی دوبارہ ملتے ہیں۔
حوالہ جات
- Scinde or The Unhappy Valley. Richard F. Burton, Vol: 1. London 1851
- ’تاریخ کے مُسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2020ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- ’تاریخ حیدرآباد‘ ۔ ترجمہ: حسین بادشاہ ۔ 2003ء۔ روشنی پبلیکیشنز، حیدرآباد
- ’سندھ گزیٹیئر 1876ء‘۔ ہیوز۔ 2017ء۔ روشنی پبلیکیشنز، حیدرآباد