حکومت ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے کینیا کے حکام پر دباؤ نہیں ڈال رہی، اہلیہ
مقتول صحافی ارشد شریف کی اہلیہ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وفاقی حکومت گزشتہ سال قتل کیے گئے صحافی کے مقدمے کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے مبینہ طور پر کینیا کے حکام پر دباؤ نہیں ڈال رہی اور اس سلسلے میں رابطہ کاری کا عمل انتہائی سست اور غیر مؤثر ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اپنی درخواست میں جویریہ صدیق نے دلیل دی کہ کینیا کے حکام کی جانب سے جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں تضاد پائے گئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیرونی ذرائع نے ارشد شریف کی موت سے متعلق حالات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے مختلف حالات و واقعات بیان کیے ہیں۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ 13 جون (منگل) کو کینیا میں ارشد شریف کی موت پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت دوبارہ شروع کرنے والا ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ارشد شریف کی والدہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ شوکت عزیز صدیقی کے ذریعے سپریم کورٹ سے اس کیس پر کام کرنے والی ایک خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو یہ ہدایت کرنے کی درخواست کی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور دیگر چار افراد کو تحقیقات میں شامل کرے تاکہ اصل مجرموں کے خلاف شواہد اکٹھے کیے جاسکیں۔
انہوں نے ایک درخواست میں کہا تھاکہ فیصل واڈا، مراد سعید، اے آر وائے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان اقبال اور بلاگر عمران ریاض سمیت ان پانچ افراد سے مشورہ کیا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے ارشد شریف کے قتل کے بارے میں پوری یقین کے ساتھ دعوے کیے تھے۔
جویریہ صدیق نے درحقیقت تازہ درخواست میں صحافی کی موت کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے لیے بین الاقوامی معاہدوں اور قراردادوں سے متعلق تمام دستیاب میکانزم فراہم کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے کیس میں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے نتیجے میں انہوں نے یہ ضروری سمجھا کہ وہ قابل عمل طریقہ کار عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کیا جائے جو ان کے شوہر کی موت کی آزادانہ، منصفانہ اور شفاف تحقیقات کرنے کے لیے بین الاقوامی آپریشنز کی آزادانہ کارروائیوں کی اجازت دے سکے۔
درخواست میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی کنونشنز کی متعدد قراردادیں پیش کی گئیں جو اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک میں تمام اشکال میں دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے نافذ کی گئی تھیں۔
یہ دفعات کسی بھی شکل میں دہشت گردی کی مذمت اور مجرمانہ کارروائی پر زور دیتی ہیں اور قابل اطلاق قانون کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے اقدامات کے نفاذ پر زور دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن نامعلوم حالات میں ارشد شریف کو قتل کیا گیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دہشت گردی کی کارروائی تھی اور وفاقی حکومت کو مختلف قراردادوں کے تحت اس سلسلے میں درست راستے کا تعین کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔