بجٹ 2023ء: ایک بے سمت میزانیہ
وفاقی حکومت نے 14.46 ہزار ارب روپے کا بجٹ اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ بجٹ تقریر کے مندرجات کا جائزہ لیا جائے تو بجٹ 24-2023ء کے اہداف میں معاشی ترقی، سماجی تحفظ میں اضافہ، بڑے انفراسٹرکچر منصوبے، زراعت میں ترقی اور قومی سلامتی کے لیے ترجیحی رقوم مختص کی گئی ہیں۔
لیکن کیا یہ بجٹ واقعی بہت اچھا ہے؟ اس بجٹ میں ٹیکس وصولی اور اخراجات کے تخمینے کس حد تک حقیقی ہیں، حکومت نے اس بجٹ میں کوئی معاشی روڈ میپ دیا ہے یا پھر یہ بھی ایک انتخابی بجٹ ہے؟ اور کیا مستقبل میں منی بجٹ کے امکانات موجود ہیں یا نہیں؟ اس تحریر میں ہم ان ہی سوالات کے جوابات تلاش کریں گے۔
محصولات پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ مجموعی وفاقی محصولات 12 ہزار 163 ارب روپے ہونگے، جس میں ایف بی آر 9 ہزار 200 ارب روپے جمع کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک سکڑتی ہوئی معیشت میں ٹیکس وصولی کا ہدف کس طرح 30 فیصد بڑھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ وہ کاروبار جہاں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہوتی ہے ان کے خلاف تو کوئی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔
توقع کی جارہی تھی کہ حکومت ریٹیل اور جائیداد کی خرید و فروخت کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کرے گی۔ مگر ایسے اقدامات ابھی تک نظر نہیں آئے ہیں۔ اس طرح سے حکومت نے ملک میں جائیداد کی سٹے بازی کی روک تھام کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔
حکومت نے خود کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ ووٹر اور سپورٹر کو بھی تحفظ دیا ہے۔ اسمبلیوں میں بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ اس سال زراعت کی کارکردگی، صنعتی شعبے اور خدمات کے شعبے کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔ گندم کی ریکارڈ فصل کے بعد مکئی اور کپاس کی فصل میں بھی بہتری کے امکانات ہیں اور اکثر سیاست دانوں کی آمدنی زراعت سے وابستہ ہے مگر زراعت سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس عائد ہی نہیں کیا گیا۔
دوسری یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد یا تو خود بڑے سیاستدان ہیں یا پھر ریئل اسٹیٹ ٹائیکون الیکشن کمپین میں اربوں روپے کے فنڈ کے علاؤہ انتخابی مہم کے لیے ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر اور بلٹ پروف گاڑیاں تک فراہم کرتے ہیں تو ایسے سپورٹر پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے سے گریز کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ریٹیل سیکٹر ہے جس میں 22 لاکھ سے زائد دکانیں ہیں۔ مگر یہ بھی ایک مضبوط لابی ہے اور حکمران اتحاد کی اہم سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کو مقامی سطح پر فنڈنگ کے علاؤہ بڑی تعداد ووٹرز بھی ہیں۔ ان پر بھی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے۔
کراچی انکم ٹیکس بار کے سابق صدر زیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ حکومت نے ٹیکس دینے والوں کی تعداد کو بڑھانے کے کوئی اقدامات تجویز نہیں کیے ہیں۔ اس کی جگہ حکومت نے ٹیکسوں کی شرح خود ہی بڑھا دی ہے جس سے 39 فیصد مہنگائی، 21 فیصد افراط زر کو جھیلتے افراد اور کاروبار کے لیے اضافی ٹیکس ادا کرنا مشکل ہوجائے گا۔ معیشت پہلے ہی سکڑ رہی ہے۔ ان ٹیکس اقدامات سے معیشت میں مزید سکڑاؤ آئے گا اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے کاروبار بندش کا شکار ہوں گے یا معیشت میں غیر دستاویزی لین دین بڑھے گا۔
اسی طرح نان فائلر پر بینک سے لین دین کر ے پر مجموعی رقم کے 0.6 فیصد۔ ٹیکس عائد کردیا ہے۔ مگر ڈار صاحب یہ اقدام اٹھانے سے پہلے یہ بھول گئے کہ ملک میں تیزی غیر بینکاری لین دین بڑھ رہا ہے اور ملک میں زیر گردش نقد کرنسی میں گزشتہ چند سال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ باوجود اس کے کہ اسٹیٹ بینک بینکاری لین دین کے فروغ پر پالیسیاں اور انفراسٹرکچر بنا رہا ہے۔ توقع تو یہ کی جارہی تھی کہ نان فائلرز کو معاشی حقوق سے محروم کیا جائے گا مگر ایسا نہ کرکے حکومت نے ٹیکس نیٹ میں آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے اور قانون نہ ماننے والوں کو قانونی تحفظ دیا ہے۔
جمع شدہ ٹیکس کی صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاق کے پاس محض 6 ہزار 887 ارب روپے رہ جائیں گے اس کے مقابلے میں وفاق کے اخراجات 14ہزار 463 ارب روپے ہوں گے۔ جو فنڈز وفاق کے پاس رہ جائیں گے اس میں سے وفاق 1804 ارب روپے دفاعی اخراجات، 1464 ارب روپے گرانٹس، 1074 ارب روپے کی سبسڈیز دے گا مگر ان تمام سے بڑا خرچہ تو سود کا ہے جس کی مد میں وفاق کو 7 ہزار 300 ارب روپے ادا کرنا ہوں گے، یعنی وفاقی خسارہ 7ہزار 573 (منفی 7.2فیصد) ہوگا۔ یہ خسارہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ خسارے سے 82 فیصد زائد ہے۔ یعنی پاکستان جتنا ٹیکس جمع کرتا ہے اس سے ایک ہزار ارب روپے یا کچھ زائد سود ادا کرے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ وفاقی حکومت کے محصولات سے زائد صرف سود کی ادائگی ہوجائے۔
پیش کردہ بجٹ سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت پہلے دن سے ہی قرض لینا شروع کردیگی اور ملک حقیقی طور پر ایک قرض کے جال میں الجھتا چلا جائے گا۔ اس تمام تر خسارے میں حکومت نے معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد رکھا ہے۔ مگر عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ دنیا کی مجموعی ترقی کی شرح سال 2023ء میں 2.1 فیصد ہوگی تو پاکستان کس طرح اور کن وجوہات کی بنا پر دنیا سے 1.4 فیصد اضافی ترقی کرسکتا ہے۔
اس کا جواب وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں یوں دیا کہ اگر پی ایس ڈی پی پر صحیح طریقے سے عمل کر لیا اور شفافیت کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی تو ہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور 3.5 فیصد کی شرح نمو حاصل کر سکیں گے، آئی ایم ایف نے بھی ہماری شرح نمو کا یہی تخمینہ لگایا ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ایک بہت بڑا اگر بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ عوامی ترقیاتی فنڈز کا استعمال درست نہیں ہوتا ہے اور بڑی رقم کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے۔
اس بجٹ میں نوجوانوں خصوصاً اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ٹیکس اقدامات رکھے گئے ہیں کیونکہ ووٹر کی عمر 18 سال ہے اور یہ سال انتخاب کا بھی ہے تو اس حوالے سے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے سستے قرضوں کے علاوہ ایک لاکھ لیپ ٹاپ کی مفت تقسیم بھی بجٹ میں رکھی گئی ہے۔ اسی طرح سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فری لانسنگ کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات اسی انتخابی بجٹ کا حصہ ہیں۔
اس بجٹ میں ایک اور انتخابی اعلان بھی سامنے آیا ہے اور وہ ہے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد کا نمایاں اضافہ یعنی حکومت نے مجموعی افراط زر کے مساوی سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھا دی ہے۔ یہ سرکاری ملازمین نہ صرف ووٹرز ہیں بلکہ انتخابی مشینری کا ایک بڑا حصہ بھی ہوتے ہیں، شاید انہیں ریلیف دینے سے انتخابات میں ایک ہمدردی کا عنصر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پنشنرز کو 17.5 فیصد ریلیف بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ مگر حکومت لاکھوں روپے پنشن لینے والوں پر ٹیکس لگانے میں ناکام نظر آئی ہے۔
پاکستان کی معیشت کو سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ادائیگیوں کا ہے جن میں بیرونی قرضوں پر اصل زر اور سود کی واپسی کے علاوہ دنیا بھر سے درآمد کی جانے والی مصنوعات اور خدمات کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ پاکستان کی بیرونی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں مگر عالمی سطح پر کساد بازاری کی وجہ سے ترسیلات میں کمی ہورہی ہے تو دوسری طرف ملکی برآمدات بھی گھٹ رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ درآمدات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم 120 ارب ڈالر ہے جس میں سے 45 ارب ڈالر عالمی ترقیاتی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف، اسلامی ترقیاتی فنڈ اور ایشن انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے ہیں۔
پاکستان کو سال 2026ء تک عالمی اداروں کو 77 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے۔ بشرط یہ کہ پاکستان کوئی قلیل مدتی قرض نہ لے۔ آئندہ مالی سال پاکستان کو 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔
اس کے لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو لازمی طور پر آئی ایم ایف سے یا تو موجودہ یا پھر نئے پروگرام پر بات چیت کرنا ہوگی۔ بجٹ میں بھی آئی ایم ایف سے 2.4 ارب ڈالر ملنے کی امید ظاہر کی گئی ہے مگر دوسری جانب ڈار صاحب نے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے تقریباً انکار ہی کردیا ہے۔
بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں آئی ایم ایف کے حوالے سے سوال پر وزیر خزانہ بات کو گول مول کرگئے اور کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ بلکہ محض یہ کر بات کی کہ ابھی 30 جون تک آئی ایم ایف کی بات رہنے دیں لیکن اگر آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو مجھے فون آجاتا۔ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام 30 جون کو ختم ہورہا ہے اور تب تک آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے قرضے پر غور ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے۔
ڈار صاحب کے الفاظ سے ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنایا ہے۔ ایک ٹی وی شو میں ڈار صاحب کا کہنا تھا کہ ’بجٹ کے نمبرز ملنے کے بعد آئی ایم ایف ہم سے کئی بار سوالات کر چکا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ بجٹ کے حوالے سے کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو مسئلہ ثابت ہو‘۔ ڈار صاحب کا کہنا تھا کہ پیرس کلب ری شیڈولنگ کا ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے، عالمی اداروں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی طرف نہیں جا رہے، قرضوں کی بروقت ادائیگی کریں گے۔
موجودہ بجٹ ملکی طقبہ اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے، رجعت پسندانہ نظریات، امیروں کو مزید آمیر بنانے اور معیشت کا بوجھ عام عوام پر منتقل کرنے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ مہنگائی، بے روزگاری اور سب صحرائی افریقا کے مساوی انسانی ترقی کرتے ملک کے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
آئندہ مالی سال کا بجٹ کسی مستحکم ترقی اور اصلاحات کے ایجنڈے اور حکمت عملی کے بغیر تیار کیا گیا ہے اور یہی کہا جارہا ہے کہ یا تو عبوری حکومت صدارتی حکم نامے کے ذریعے یا پھر نومنتخت حکومت ضمنی فنانس بل کے ذریعے اس بجٹ میں بڑی تبدیلیاں کرے گی چاہے وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی کیوں نہ ہو۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔