عالمی بینک کی پاکستان کی شرح نمو آئندہ مالی سال کے دوران سست رہنے کی پیش گوئی
قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کے لیے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کی منظوری دی ہے جس کے برعکس ورلڈ بینک نے آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 2 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک نے گزشتہ روز جاری ہونے والی اپنی تازہ ترین گلوبل اکنامک پراسپیکٹس رپورٹ میں کہا کہ ’پاکستان میں اگست 2022 کے سیلاب کے دیرپا اثرات، پالیسی کی غیریقینی صورتحال اور خوراک، توانائی اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے محدود وسائل سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں، اس کے نتیجے میں رواں مالی سال میں مارچ 2023 تک صنعتی پیداوار میں تقریباً 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور جمود کا شکار ترسیلات زر کے پیش نظر حکومت نے شرح تبادلہ میں لچک میں اضافہ کیا جس سے سال کے آغاز سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوچکی ہے، نتیجتاً مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا جوکہ مئی تک 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ممالک میں مہنگائی ہدف سے اوپر ہے اور خاص طور پر پاکستان اور سری لنکا میں اس کی شرح زیادہ ہے، کچھ ممالک میں محدود زرمبادلہ کے ذخائر پیداوار کے لیے درآمدی اشیا تک رسائی کو محدود کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں پالیسی ریٹ میں اضافہ مہنگائی کی شرح کے مطابق نہیں رہا ہے، اس کے نتیجے میں سود کی اصل شرح شدید منفی ہو گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ورلڈ بینک چاہتا ہے کہ اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ کو 21 فیصد کی موجودہ سطح سے مزید بڑھائے۔
فی الحال شدید اقتصادی دباؤ کا سامنا کرنے والے ممالک، خاص طور پر افغانستان، پاکستان اور سری لنکا میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان علاقوں میں معاشی تنزلی کا رجحان دوبارہ شروع ہوجائے گا جو 21-2020 میں تھم گیا تھا۔
تاہم گراوٹ اتنی تیز نہیں ہوگی جتنا پہلے مہنگائی کی بلند شرح، روزگار کی بحالی میں سست روی اور غذائی امداد رکنے کے اثرات کے پیش نظر خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا، 2023 میں جنوبی ایشیا میں 3.65 ڈالر یومیہ سے کم کمانے والے لوگوں کی تعداد 2020 میں کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے اضافے سے بہت کم رہنے کا امکان ہے۔
ورلڈ بینک نے کہا کہ متعدد ممالک (بنگلہ دیش، نیپال، پاکستان، سری لنکا) کی جانب سے عائد کردہ درآمدی پابندیوں نے اقتصادی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا جن میں نرمی کی گئی ہے کیونکہ بیرونی عدم توازن میں بہتری آئی ہے اور شرح تبادلہ کا دباؤ کم ہوا ہے، تاہم عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کے باوجود بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں خوراک کی برآمدات پر پابندی رواں برس تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔
رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں کچھ ممالک (افغانستان، پاکستان اور سری لنکا) کو اندرونی بحرانوں کے سبب شدید معاشی دھچکوں کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ان کی ترقی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس سیلاب کے تباہ کن اثرات، بگڑتے سماجی مسائل، مہنگائی کی بلند شرح اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے رواں مالی سال کے دوران ترقی کی شرح 0.4 فیصد رہی جو کہ جنوری میں ترقی کی شرح سے 1.6 فیصد-پوائنٹ کم ہے، دوسری جانب حکومت کے مطابق رواں مالی سال کے دوران شرح نمو 0.3 فیصد رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نصف سے زیادہ جنوبی ایشیا گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران ایک یا ایک سے زیادہ بار قدرتی آفات سے متاثر ہوا، پاکستان میں 2022 کے سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈبو دیا تھا اور اس سے جی ڈی پی کا 4.8 فیصد نقصان ہوا تھا۔
رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ خطے کی مجموعی ترقی کی شرح 2023 کے دوران معمولی طور پر کم ہو کر 5.9 فیصد ہو جائے گی اور 2024 میں یہ واضح طور پر کم ہوکر 5.1 فیصد ہو جائے گی۔