امید ہے رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہوجائے گا، وزیر اعظم
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں، امید ہے رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہو جائے گا۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے موقع پر ترکیہ کے قومی خبر رساں ادارہ ’انادولو‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کے عوام اور برادرانہ، دوست ممالک کی مدد سے بہترین انداز میں چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے۔
وزیر اعظم، ترک صدر رجب طیب اردوان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے انقرہ میں تھے جہاں ان کے ساتھ دیگر درجنوں سربراہان مملکت بھی موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکیہ مستقبل قریب میں بائیو گیس، شمسی توانائی اور پن بجلی جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے تجارت کو بڑھانے اور باہمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تعاون کو فروغ دیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم اب بھی بہت پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام عمل میں آئے گا، آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے اور امید ہے کہ ہمیں اس مہینے کچھ اچھی خبر ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام شرائط پوری کر دی ہیں، آئی ایم ایف کی ہر ایک شرط کو پیشگی اقدامات کے طور پر پورا کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ اقدامات عام طور پر بورڈ کی منظوری کے بعد پورے کیے جاتے ہیں لیکن اس بار آئی ایم ایف کا تقاضا تھا کہ ان اقدامات کو بورڈ کی منظوری سے پہلے پورا کیا جائے، اس لیے ہم نے ان کو پورا کیا۔
اس موقع پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں ہنگامی منصوبے کے حوالہ سے وزیر اعظم نے پاکستانی قوم کے عزم اور استقامت پر زور دیا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے ماضی میں چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی کمر کس لیں گے اور کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت اپریل 2022 میں عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر قائم ہوئی اس وقت سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، یہ مسائل گزشتہ حکومت کی پالیسیوں، اگست میں آنے والے مہلک سیلاب اور مہنگائی کے باعث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، اپریل 2022 میں دیوالیہ ہونے کے قریب تھا کیونکہ اس وقت کی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور معیشت تباہی کا شکار تھی۔
شہباز شریف نے کہا کہ پھر ہمارے ملک میں اگست 2022 میں تباہ کن سیلاب آیا، اس کے ساتھ ہمیں بین الاقوامی صورتحال کی وجہ سے تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا بھی سامنا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کی حکومت پاکستان کے عوام اور برادرانہ اور دوست ممالک کی مدد سے بہترین انداز میں چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے متعلق بیان ایسے وقت میں سامنا آیا ہے جب اسلام آباد، فروری کے اوائل سے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے بات چیت کر رہا ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ حکومت کی جانب سے 2019 میں 6 ارب 50 کروڑ ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر دستخط کیے گئے تھے۔
آئی ایم ایف قسط کے اجرا کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ نومبر سے تاخیر کا شکار ہے جبکہ اسٹاف لیول مشن کو پاکستان آئے تقریباً 4 ماہ گزر چکے ہیں جو کہ کم از کم 2008 کے بعد اس طرح کی طویل ترین تاخیر ہے۔
آئی ایم ایف پیکیج میں سے مجموعی طور پر تقریباً 2 ارب 70 کروڑ ڈالر جاری کیے جانے کے لیے باقی ہیں جس کی میعاد رواں ماہ ختم ہونے والی ہے۔
مئی کے آخر میں وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے تعطل کا شکار معاہدہ بحال کرنے میں مدد کی درخواست کی، لیکن ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کے پاس بیک اپ پلان بھی موجود ہے۔
دوسری جانب وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ پاکستان اپنے بجٹ کی تفصیلات آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ آئی ایم ایف اپنا 9واں جائزہ جون کے شروع میں پیش کیے جانے والے بجٹ سے قبل کلیئر کر دے جب کہ معاہدے کی تمام شرائط پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں۔
اپنی جانب سے جاری بیان میں آئی ایم ایف نے کہا کہ وہ پاکستان کے حکام سے رابطے میں ہے تاکہ جون کے آخر میں فنانسنگ پروگرام کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی بورڈ میٹنگ کی راہ ہموار کی جا سکے۔
عام طور پر پروگرام جائزے سے متعلق بورڈ میٹنگ کے لیے اسٹاف لیول پیشگی معاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔
’کیا کوئی مہذب ملک 9 مئی جیسی توڑ پھوڑ کی اجازت دے گا؟‘
9 مئی کو کرپشن کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات سمیت سرکاری اور نجی املاک کی توڑ پھوڑ کی گئی، اس روز کے واقعات سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو سنگین بدعنوانی، کرپشن اور وہیلنگ ڈیلنگ کے الزامات کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان اپنی گرفتاری کی صورت میں ایک مدت سے اپنے لوگوں کو پرتشدد ردعمل ظاہر کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہے تھے، یہ ان کے ٹھگوں کا ایک گروپ ہے، انہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف انتہائی سنگین اقدام کی منصوبہ بندی کی، انہوں نے اپنے لوگوں کو اکسایا، اس کے کسی شک و شبہ سے بالاتر ثبوت موجود ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کے حامیوں کو عمارتوں کو نذر آتش کرنے، اداروں پر حملہ کرنے اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جن لوگوں نے شہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے ان کے خلاف سویلین قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا اور جن لوگوں نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا اور اداروں کی بے حرمتی کی ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ ایکٹ 1951 سے نافذ ہے اور فوجی اہلکاروں کے علاوہ ایسے عام شہریوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دیتا ہے جن کا بعض مجرمانہ کارروائیوں سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہے، اس ایکٹ کے تحت ایک بار جج کی جانب سے سزا سنانے کے بعد مدعا علیہ کے پاس دو اپیلیں ہوتی ہیں، وہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اس پورے عمل کا مقصد انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے تاکہ پاکستان میں دوبارہ ایسا کبھی نہ ہو، کیا کوئی بھی مہذب ملک ریاست کے خلاف اس طرح کی توڑ پھوڑ کی اجازت دے گا جو پاکستان میں 9 مئی کو ہوا؟
انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو 6 جنوری 2021 کو واشنگٹن میں کیپٹل ہل میں ہوا تھا، کیا ان مجرموں پر مقدمہ نہیں چلایا جا رہا ہے اور انہیں سخت سزائیں نہیں دی جا رہی ہیں تاکہ امریکا کی تاریخ میں ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو؟
’پاکستان اور ترکیہ ایک روح کی طرح ہیں جن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں‘
شہباز شریف نے ترکیہ کے عوام کو صدر رجب طیب اردوان کے دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی، انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ مل کر کام کروں گا، وہ ایک بصیرت والے رہنما اور عوامی خدمت پر یقین رکھنے والی پرعزم شخصیت ہیں، مجھے امید ہے کہ ہمارے تعلقات بھائی چارے، افہام و تفہیم اور اقتصادی تعاون کے لحاظ سے بہت زیادہ مضبوط ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دونوں برادر ممالک ایک روح کی طرح ہیں جن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، ہم مختلف زبانیں بولتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے کیا کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکیہ مستقبل قریب میں بائیو گیس، شمسی توانائی اور پن بجلی جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے تجارت کو بڑھانے اور باہمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تعاون کو فروغ دیں گے۔