پاکستان میں سیاسی افراتفری نے برطانیہ کیلئے بھی سوالات کھڑے کردیے
برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لندن میں مقیم 2 ممتاز پاکستانی خاندانوں سے وابستہ جائیدادوں کے تناظر میں سیاسی اشرافیہ اور ان کی جائیداد کے لیے برطانیہ کے ایک محفوظ ٹھکانہ ہونے کی حیثیت نے سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’دی گارڈین‘ کی اس رپورٹ میں پارک لین پر واقع ایون فیلڈ ہاؤس میں شریف خاندان کی رہائش گاہ اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کی ہائیڈ پارک پلیس پر حویلی کا ذکر ہے، جو 2019 میں ملک ریاض کے ساتھ نیشنل کرائم ایجنسی کے تصفیے کے دوران سامنے آئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک ریاض کی پراپرٹی (جس کی مالیت 2019 میں 5 کروڑ پاؤنڈ تھی) این سی اے کے ساتھ ہونے والے تصفیے کا مرکز تھی اور اس تصفیے میں شامل رقم پاکستان میں ایک تنازع کا موضوع بن گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ پراپرٹی 2022 کے اوائل میں 3 کروڑ 85 لاکھ پاؤنڈز میں فروخت کی گئی تھی اور یہ رقم بھی این سی اے نے پاکستان کو واپس کر دی تھی۔
رپورٹ میں انسداد بدعنوانی مہم کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان میں ہنگامہ آرائی نے ملک ریاض کے فائدے کے لیے تصفیے سے فنڈز حاصل کرنے میں برطانیہ کے این سی اے کے کردار پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں سیاسی افراتفری خود برطانیہ کے لیے بھی سنگین سوالات اٹھاتی ہے، عمران خان کی گرفتاری اور پاکستانی سیاست میں گزشتہ دہائی کے دوران ہونے والے ہنگامہ خیز واقعات اسلام آباد اور لندن کے درمیان دولت کی ترسیل اور سیاسی اشرافیہ اور ان کی جائیداد کے لیے برطانیہ کی عجیب و غریب حیثیت کے ساتھ گہرائی تک الجھی ہوئی ہے، گزشتہ برس دولت کے ٹھکانے کے طور پر لندن کا کردار اس انداز میں جانچ پڑتال کی زد میں آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سماجی کارکنان نے دلیل دی ہے کہ روس کی سیاسی کاروباری شخصیات کے علاوہ لندن پوری دنیا کی سیاسی اشرافیہ کا مرکز ہے، اس میں شریف خاندان اور ملک ریاض سے وابستہ جائیدادوں کا حوالہ دیا گیا جو کہ لندن کی ایک ’محفوظ ٹھکانے‘ جیسی حیثیت ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک ریاض خاندان کے وکلا کے مطابق یہ خاندان برطانیہ میں دیگر جائیدادوں کا بھی مالک ہے جسے پاکستان کے ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کیا گیا ہے۔
بعدازاں اس رپورٹ میں ایون فیلڈ ہاؤس کا ذکر کیا گیا، جہاں شریف خاندان نے مبینہ طور پر ایک فلیٹ بنانے کے لیے 4 مہنگے اپارٹمنٹس خریدے۔
رپورٹ میں نواز شریف کے لندن میں رہنے کی اہلیت پر بھی سوال اٹھایا گیا، اینٹی کرپشن واچ ڈاگ ’اسپاٹ لائٹ آن کرپشن‘ کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق ’حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف برطانیہ آ کر پاکستان میں انصاف سے بچنے میں کامیاب ہوئے، پھر یہاں رہ کر کاروبار چلانا اور سیاسی سرگرمیوں کی ہدایت دینا اصل امیگریشن اسکینڈل ہے، یہ واضح ہے کہ برطانیہ کے امیگریشن سسٹم میں کرپٹ سیاستدانوں کے لیے الگ اصول ہے اور حقیقی پناہ گزینوں کے لیے الگ اصول ہے۔
بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ ان 2 جائیدادوں کی کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے لندن میں چھپائی گئی دولت کی تحقیقات کے بارے میں برطانیہ اپنا مؤقف پیش کرنے کے لیے جوابدہ ہے۔