قانونی ٹیم کا عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور
افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں امریکا میں 86 سال کی قید کاٹنے والی پاکستانی نیورو سائنسدان عافیہ صدیقی نے ٹیکساس کے جیل ہسپتال میں اپنی بہن سے تیسری ملاقات کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عافیہ کے وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے ملاقات سے قبل ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’برائے مہربانی آج فوزیہ صدیقی اور عافیہ کے بارے میں سوچیں! 20 سال بعد دوبارہ ملنے کی داغدار خوشی کے بعد آج انہیں کم از کم تھوڑی دیر کے لیے الوداع کہنا پڑے گا‘۔
دونوں بہنوں کی 20 برسوں میں پہلی ملاقات منگل کو ٹیکساس کے فورٹ ورتھ کے کارسویل جیل ہسپتال میں ہوئی تھی، وکیل نے دونوں بہنوں کے درمیان ہونے والی تینوں ملاقاتوں میں شرکت کی جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد بھی کم از کم ایک موقع پر ان کے ساتھ گئے۔
وکیل نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا کہ ’حکومت پاکستان، آپ اس کی ایمانداری کی مرہون منت ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عافیہ اور میں نے آج اس بارے میں بات کی کہ کیسے انہیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کا شیر خوار بیٹا سلیمان واقعی اس وقت مارا گیا تھا جب انہیں اصل میں اغوا کیا گیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عافیہ کو 2008 میں افغانستان میں حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں پوچھ گچھ کے لیے امریکی فوجی اڈے پر لایا گیا تھا، جہاں انہوں نے رائفل اٹھا کر اپنے تفتیش کاروں پر فائرنگ کر دی تھی۔
امریکی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ مارچ 2003 سے جولائی 2008 تک ان کے ٹھکانے سے لاعلم تھیں لیکن عافیہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں پہلے کراچی سے اغوا کیا گیا تھا، جہاں ان کا بیٹا بھی لاپتا ہو گیا تھا۔
جب عافیہ کو قید کیا گیا تھا تو ان کی دیگر دو اولادیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی کم سن تھے اور اب ان کی عمریں 20 سال سے زائد ہیں جن کی تصاویر انہوں نے منگل کے روز دیکھیں۔
ان کا ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اپنے خاندان کے کسی فرد سے رابطہ نہیں ہوا۔
وکیل کلائیو اسمتھ نے کہا کہ ’یہ بہت افسردہ کرنے والا تھا لیکن اس کے باوجود اس جذباتی ملاقات کے لیے موجود ہونا ایک اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جیل کے ان دوروں کی توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ ہم انہیں ان کے موجودہ مقام سے گھر کس طرح لے کر جاسکتے ہیں‘۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بہنوں کی ملاقات شیشے کی دیوار سے تقسیم کمرے میں ہوئی اور انہیں تحائف کے تبادلے کی اجازت نہیں تھی، ڈاکٹر فوزیہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ عافیہ کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ اپنی والدہ کی موت سے آگاہ نہیں تھی، جن کا گزشتہ سال انتقال ہو گیا تھا۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کی تحریک سے وابستہ ایک پاکستانی وکیل داؤد غزنوی نے کہا کہ اگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکی حکام کو یقین دلائے کہ ’وہ عافیہ کو محفوظ جگہ پر رکھیں گے‘ اور انہیں ان کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دیں گے تو امریکی حکام عافیہ کو پاکستان بھیج سکتے ہیں۔
کلائیو اسمتھ نے کہا کہ ’ہماری درخواست ہے کہ عافیہ کو گھر جانے دیا جائے لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب پاکستان مخلصانہ کوشش کرے‘۔