ایف بی آر ایک بار پھر ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام
فیڈرل بورڈ آف ریونیو آئی ایم ایف کے ساتھ 2023 کے لیے طے کردہ ٹیکس کلیکشن ہدف کو پورا کرنے میں ناکام ہوگیا جب کہ 66 کھرب 40 ارب ہدف کے مقابلے میں 62 کھرب 10 ارب روپے وصول کیے گئے جب کہ ایف بی آر ہدف سے 430 ارب یا 6۔47 فیصد پیچھے رہا۔
تاہم ٹیکس حکام نے کہا کہ مالی سال 2022 جولائی تا مئی ریونیو 53 کھرب 69 ارب روپے کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ ہوا، عبوری اعداد و شمار کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ محصولات کی وصولی میں درآمدات کی کمی کے ساتھ سیلز ٹیکس وصولی میں کمی دیکھی گئی۔
مئی میں محصولات کی وصولی 621 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 572 ارب روپے رہی جب کہ 49 ارب روپے کی کمی دیکھی گئی، ہدف کے حصول سے اس دوری کے باعث ایف بی آر فیلڈ فارمیشنز کے لیے مالی سال کے آخری مہینے جون میں سالانہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اتنے بڑے خلا کو پورا کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔
مئی کی مجموعی ریکوری میں گزشتہ سال کے 495 ارب روپے کے مقابلے میں 15.5 فیصد اضافہ ہوا، آئندہ چند روز میں جب بک ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی تو مزید چند ارب روپے حکومتی اکاؤنٹس میں آ سکتے ہیں، موجودہ ریکوری 7.47 ٹریلین روپے کے متوقع اس ہدف سے بہت کم ہے جس کی حکومت نے مالی سال 2023 کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ سے کمنٹمنٹ کی تھی۔
ایف بی آر کی جانب سے اعلامیے میں کہا گیا کہ مئی میں 33 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے، مئی 2022 میں 131 ارب روپے کے مقابلے میں ڈومیسٹک انکم ٹیکس کی مد میں 57 فیصد اضافے کے ساتھ 205 ارب روپے اکٹھے کیے، یہ اضافہ بنیادی طور پر مختلف اقدامات بالخصوص امیر لوگوں پر سپر ٹیکس کی وجہ سے ہے۔
14 فروری کو ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دی، اسی طرح سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، ساڑھے تین ماہ میں ان دونوں اقدامات سے آمدنی کا تخمینہ 115 ارب روپے لگایا گیا، یکم مارچ سے نافذ کیے گئے نئے ٹیکس اقدامات کے تحت آئندہ تین ماہ میں 170 ارب روپے سرکاری خزانے کے لیے اضافی ٹیکس ادائیگیوں میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے 7 فروری کو بڑے ٹیکس دہندگان کو اپنے سپر ٹیکس کا 50 فیصد ایف بی آر میں جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔
ان تمام اقدامات کے باوجود ایف بی آر مئی میں محصولات کی وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا، محصولات بڑھانے کے لیے کیے گئے متعدد اقدامات کے باوجود ٹیکس مشینری کی کارکردگی توقعات سے کم رہی، اس کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ 36 فیصد سے زائد افراط زر کا اثر بھی محصولات وصولی میں ظاہر کیا گیا۔
اسی مدت کے دوران درآمدی ٹیکس وصولی میں زبردست کمی واقع ہوئی، اس کمی کی وجہ ہائی ڈیوٹی اشیا جیسے آٹوموبائلز، الیکٹرانک آلات، سیرامکس اور دیگر غیر ضروری مصنوعات کی درآمدات میں کمی ہے۔
حکومت کی توجہ ملک کے زرمبادلہ بچانے کے لیے توانائی، خوراک اور ادویات کی مصنوعات کی درآمد کی اجازت دینا ہے، مئی کے مہینے میں کسٹمز وصولی 75 ارب روپے رہی جو کہ 105 ارب روپے کے متوقع ہدف کے مقابلے میں 30 ارب روپے کم ہے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے 11 ماہ میں براہ راست ٹیکس وصولی ہدف کے مطابق رہی، تاہم رواں مالی سال میں انکم ٹیکس ریفنڈز نہ ہونے کے برابر رہے۔
مجموعی طور پر سیلز ٹیکس وصولی میں غیر معمولی افراط زر اور جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کے باوجود بہتری نہیں آسکی، رواں مالی سال کے 11 ماہ میں سیلز ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی، سگریٹ کے نرخوں اور دیگر شعبوں میں ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کے باوجود فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی ہدف سے کم رہی۔
ایف بی آر اعلامیے کے مطابق ڈومیسٹک سیلز ٹیکس میں تقریباً 100 ارب روپے کی وصولی کے ساتھ سالانہ بنیاد پر 28 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں تقریباً 41 ارب روپے اکٹھے کیے گئے جو سالانہ بنیاد پر 32 فیصد اضافہ ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈومیسٹک ٹیکس وصولی میں مجموعی طور پر تقریباً 44 فیصد اضافہ دیکھا گیا، یہ اضافہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ معیشت کی رفتار کم ہے اور نظر ثانی جی ڈی پی شرح نمو کم کردی گئی ہے، ملکی ٹیکسوں کی وصولی میں تقریباً 44 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
تاہم غیر معمولی سختی کے باعث درآمدات میں اضافے کو برقرار نہیں رکھا جا سکا۔
امریکی ڈالر کے لحاظ سے مئی 2022 کے مقابلے میں مئی 2023 میں ملک میں درآمدات میں 37 فیصد کمی واقع ہوئی، مزید یہ کہ ہائی ڈیوٹی اشیا جیسے گاڑیاں، ہوم اپلائنس کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ جیسے گارمنٹس، فیبرکس، جوتے وغیرہ کی درآمدات میں کمی ہوگئی ہے، اس سے کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس وصولی بھی متاثر ہوئی ہے۔