آئی سی سی کے ریونیو ماڈل سے کرکٹ کی ترقی خطرے میں ہے، ایسوسی ایٹ اراکین
عالمی کرکٹ میں مالی خسارے کا شکار ایسوسی ایٹ رکن ممالک انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی طرف سے مجوزہ نئے ریونیو ڈسٹری بیوشن ماڈل سے تشویش کا شکار ہیں جس سے کھیل کے ترقی میں ممکنہ طور پر رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق آئی سی سی نے 27-2024 کے لیے نیا ریونیو ڈسٹری بیوشن ماڈل تجویز کیا ہے جس پر جولائی میں ہونے والی بورڈ میٹنگ میں ووٹ دیا جائے گا۔
کرک انفو کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کرکٹ کے فنانشل انجن بھارت کو اس میں 38.5 فیصد کا حصہ ملے گا۔
اسی طرح آئی سی سی کے 12 فل ممبرز کو مجموعی طور پر 88.81 فیصد حصہ دیا جائے گا جبکہ بقیہ حصہ 94 ایسوسی ایٹ اراکین میں تقسیم کیا جائے گا۔
تاہم آئی سی سی نے اعداد و شمار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ جنرل منیجر وسیم خان نے کہا کہ مجوزہ ریونیو ماڈل کے تحت تمام اراکین کو ماضی سے اب زیادہ رقم دی جائے گی۔
پاکستان پہلے ہی ریونیو ماڈل کے خلاف اپنی مخالفت کو واضح کر چکا ہے جبکہ دیگر کم ترقی یافتہ کرکٹنگ ممالک میں بھی ناراضی پائی جا رہی ہے۔
آئی سی سی چیف ایگزیکٹوز کمیٹی کے تین ایسوسی ایٹ ممبر نمائندوں میں سے ایک سومود دامودر نے کہا کہ یہ تجویز ایسوسی ایٹ ممبران کی ضروریات کو پورا نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ متعدد وجوہات موجود ہیں کہ ریونیو ماڈل ایسوسی ایٹ ممبران کے لیے کیوں کم ہوگا۔
نیپال میں مینز کرکٹ اور تھائی لینڈ میں ویمنز کرکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ضروری مالی معاونت فراہم کی گئی تو متعدد ممالک کھیل سکتے ہیں۔
وناتو کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو ٹم کٹلر نے کہا کہ مجوزہ ریونیو ماڈل صرف کرکٹ کے درمیان عدم مساوات کو واضح کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی سی بورڈ میں کُل وقتی اراکین کو 17 میں سے 12 ووٹ حاصل ہیں اور ایسے میں خود سے فنڈز منتقل کرنا یا اچھی کرکٹ کے لیے آزادانہ فیصلے کرنا ایسی ہی ہے جیسے ’کرسمس کے لیے ترکیہ کی ووٹنگ‘۔
تاہم ایسوسی ایٹ ممبران کے خدشات کے حوالے سے پوچھے جانے پر آئی سی سی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
ادھر آئی سی سی کے سابق صدر احسان مانی نے کہا کہ کچھ ممالک کی بڑی تجارتی صلاحیت کے باوجود ترقی پذیر کرکٹنگ ممالک کے بارے میں گورننگ باڈی کے نقطہ نظر کی کمی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق صدر نے کہا کہ عالمی کرکٹ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ریونیو فراہم کرنے کی بنیاد پر ایک ہی ملک بھارت پر حد سے زیادہ انحصار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا، مشرقی وسطیٰ اور چین آئی سی سی، اس کے اراکین اور عالمی کھیل کو وسیع فائدہ دیں گے اور عالمی کرکٹ اس سے بھی زیادہ مضبوط اور امیر ترین ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی کرکٹ کو ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے مضبوط ٹیموں کی ضرورت ہے۔
احسان مانی نے کہا کہ فنڈز کی قلت کے باعث زمبابوے میں کرکٹ کو شدید مشکلات کا سامنا رہا جس طرح آئرلینڈ اور افغانستان نے اس کا سامنا کیا اور ان میں سے کسی بھی ملک میں سرماریہ کاری کی عدم موجودگی کرکٹ کو غیر پائیدار بنائے گی اور عالمی کرکٹ مزید تباہ ہوگی۔