ایم کیو ایم کے مطالبے پر سندھ کا نقطہ نظر
متحدہ کی جانب سے کراچی فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے پر سندھی پریس نے شدید ردعمل کا ظہار کیا ہے اور اسے جمہوریت کے خلاف اقدام قرار دیتے ہوئے اسے سیاست قرار دیا ہے۔
سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ متحدہ کے مطالبے کا کسی بھی اہم سیاسی جماعت نے خیرمقدم نہیں کیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ میٹروپولیٹن شہر فوج کے حوالے کیا جائے گا تو اس کا ملک بھر میں کیا اثر پڑے گا؟ اخبار لکھتا ہے کہ امن و امان کے نام پر اگر کراچی میں ایسا کیا گیا تو ملک کے دیگر شہروں کے لیے بھی ایسا کیا جائے گا؟ عوام معتدل، آئینی اور جمہوری دائرے میں کراچی کی امن کی طرف واپسی دیکھنے کا منتظر ہے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ حکومت کو ناکام قرار دے کر کراچی میں دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے سہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ماضی میں ایم کیو ایم کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی مخالفت کرتی رہی ہے۔مگر اس مرتبہ اس نے یہ مطالبہ کیا ہے۔ جب وہ اقتدار سے باہر ہے۔ لہٰذا اس مطالبے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ مطالبہ کر کے ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو تنگ کیا ہے یا اس کے پیچھے بعض اور عناصر ہیں؟
متحدہ کا مطالبہ بلاشبہ غیر جمہوری ہے۔ کیونکہ منتخب حکومت کو نظرانداز کر کے اپنی چلانا کسی طور پر بھی جمہوری سیاست نہیں کہلائے گی۔ وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کے صلاح مشورے کے بغیر کوئی قدم اٹھایا تو وہ غیر جمہوری ہوگا۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے ایک ہی سانس میں دو باتیں کہہ گئے ہیں۔ ایک طرف وزیراعلیٰ سندھ سے کہہ رہے ہیں کہ قدم بڑھاؤ وفاق آپ کے ساتھ ہے۔ دوسری طرف وہ فوج طلب کرنے کا آپشن بھی رکھ رہے ہیں اور رینجرز کے لیے زیادہ اختیارات بھی مانگ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ یہ کہہ چکے ہیں کہ ڈی جی رینجرز ان کے کہنے میں نہیں۔
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ میاں نواز شریف نے تین ستمبر کو کراچی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کر کے اپنی ساکھ بڑھائی ہے۔ اگر سندھ حکومت غافل رہی تو وفاق امن و امان کے مورچے پر کوئی بڑی فتح حاصل کر سکتا ہے۔
روزنامہ عبرت کے کالم نگار عاجز جمالی لکھتے ہیں کہ کراچی میں صرف پولیس ہی سیاست زدہ نہیں ہے۔ بلکہ رینجرز سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے سیاست اور کاروبار سے باہر نہیں۔ ہر کاروبار میں ہر ادارے کا بندہے شریک ہیں۔ کراچی پر کنٹرول کی جنگ جاری ہے۔ بلدیاتی نظام پر اختلافات کی بناء پر ایم کیو ایم آنکھیں دکھا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کراچی فوج کے حوالے کرنے مطالبہ سنجیدگی سے کر رہی ہے یا یا صرف سیاسی بنیاد پر کر رہی ہے؟ کیونکہ جب کراچی میں واقعی فوج آئے گی اور آپریشن کرے گی تب سب سے بڑا اعتراض ایم کیو ایم کو ہی ہوگا۔
روزنامہ کاوش کے کالم نگار ابرہیم کنبھر لکھتے ہیں کہ حال ہی میں یہ اشو ابھرا ہے اس کے پس منظر میں لیاری کا معاملہ ہے۔ کراچی کے کئی علاقے اسی کے عشرے سے نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں۔ جہاں فائرنگ،قتل اور دہشتگردی سالہا سال سے جاری ہے۔ مگر وہاں کے لیے آپریشن کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔لیکن لیاری کے واقعات کا درد زور پکڑ گیا ہے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ گزشتہ دور میں جب متحدہ حکومت میں شامل تھی امن و امان کی صورتحال اتنی ہی خراب تھی۔ لیکن تب یہ جماعت اس مطالبے کی مخالفت کرتی رہی۔متحدہ کے مطالبے کا تعلق صرف کراچی سے نہیں۔ بلکہ یہ پورے سسٹم کے خلاف عدم اعتماد کی آوازہے۔ دراصل ایم کیو ایم پورے کراچی میں فوج کا مطالبہ نہیں کر رہی وہ صرف لیاری میں ایسا کرانا چاہتی ہے۔
کاوش سندھ کے دارالحکومت کو فوج کے حوالے کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے امید کرتا ہے کہ وفاقی حکومت جمہوریت کے مفاد میں فیصلہ کرے گی۔ ہم ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کی بالغ نظری کو سراہتے ہیں جنہوں نے کراچی کا حک جرنیلی جراحوں کے بجائے سیاسی طب کے ذریعے کرنے پر زور دیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں