’مرشد خانے کی تلاشی نومور‘
لفظ مرشد یا مرشد خانہ فیض کے حصول کا وہ مقام ہے جہاں مریدین آنکھوں پر عقیدت کی پٹی باندھے کسی بھی منزل سے گزرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ مگر کیا کہنے پنجاب کے سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے جو پاکستان کے سب سے مقبول مرشد خانے کی تلاشی پر نہ صرف مصر ہیں بلکہ ان کے ماتحت سرکاری افسران زمان پارک کے مرشد خانے کو شرپسندوں کی آماج گاہ قرار دے کر اس کی تلاشی لینے سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
لاہور شہر کے پہلے پوش علاقوں میں شمار کیا جانے والا زمان پارک جو 90 کی دہائی تک دنیا بھر میں عمران خان کے مداحوں کے باعث مشہور مقام تھا، کب اور کیسے مرشد چوک بنا اور اب اس کی تلاشی کیوں لی جارہی ہے؟ کیا آکسفورڈ سے فارغ التحصیل سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے گھر میں واقعی شرپسند موجود ہیں؟ یہ طویل بحث کسی اور وقت کریں گے۔
اس وقت بات ہوگی بدلتی سیاسی صورتحال میں اپنے گھر تک مقید ہوجانے والے ملک کے مقبول سیاسی رہنما کی، جس کی جماعت کے تمام سرکردہ رہنما بلکہ خود اسی کے مطابق 7 ہزار سے زائد کارکنان جیلوں میں بند ہیں۔
ماضی قریب کے سیاسی واقعات کا جائزہ لیا جائے تو شاید یہ اعزاز بھی عمران خان کے پاس ہی ہے کہ بطور سابق وزیراعظم پاکستان پولیس ان کی رہائش گاہ زمان پارک مرشد خانے کی تلاشی کے لیے سرچ وارنٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے اور پھر پولیس اور انتظامیہ کا اعلی سطح کا وفد تلاشی کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے عمران خان سے مذاکرات بھی کرے۔
مال روڈ پر کنال چوک سے زمان پارک کی جانب رخ کریں تو گیٹ نمبر 2 کا وہ راستہ جو عمران خان کی رہائش گاہ کی جانب جاتا ہے، اسے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے مرشد چوک سے بند کر رکھا تھا اور یہاں باقاعدہ ’مرشد چوک‘ نامی تختی بھی آویزاں تھی۔ اب ظاہر ہے جب عمران خان نے اپنی اہلیہ بشری بی بی کو اپنا مرشد مان لیا ہے تو اب وہ جہاں رہتی ہیں وہ مرشد خانہ ہی کھلائے گا۔
مرشد چوک کی رونقیں بالکل ماند پڑ چکی ہیں اور آپریشن کلین اپ کے بعد تو اب ایسا سماں ہے کہ جیسے پہلے یہاں کبھی کوئی سیاسی میلہ سجا ہی نہیں تھا۔ نہر کنارے زمان پارک میں گیٹ نمبر ایک سے گڑھی شاہو انڈر پاس تک تقریباً 200 میٹر کی گرین بیلٹ پر ٹکٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کے کیمپ موجود تھے جو اپنی اپنی جیب کے مطابق کارکناں کو خوش کرنے کے لیے قیام و طعام کا انتظام کرتے تھے۔
ریڑھی بانوں کی بھی خوب دکانداری چمکی ہوئی تھی، مشروبات، چائے، پھل اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کی خواہش تھی کہ یہ سلسلہ کبھی بند ہی نہ ہو۔ میں نے ایک آلو چنے فروخت کرنے والے شخص سے پوچھا کہ روزانہ کتنے کی فروخت ہوجاتی ہے تو اس نے کہا ’عام دنوں میں تو 6 سے 7 ہزار کی لیکن چھوٹی عید کے پہلے دن 15 ہزار روپے کے آلو چنے فروخت کیے، وہ بھی شام 4 سے رات 12 بجے تک‘ اور ایسے بےشمار افراد تھے جن کی بہاریں مرشد چوک کی وجہ سے قائم تھیں۔
مئی کے واقعات سے پہلے ’خان ہماری ریڈ لائن ہے‘ کے نعرے لگانے والے ٹکٹ ہولڈرز، اراکین اسمبلی اور جنونی نوجوان سب ہی ایسے گم ہوئے ہیں جیسے یہاں کبھی کسی کا بسیرا تھا ہی نہیں۔ گرین بیلٹ پر نئے پودے لگ چکے ہیں، صفائی ستھرائی جاری ہے لیکن صرف رہ گئی ہے تو مرشد خانے کی تلاشی۔
جب کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کی سربراہی میں ڈپٹی کمشنر لاہور اور پولیس کے دو اعلیٰ افسران اپنی ٹیم کے ہمراہ زمان پارک عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر سرچ وارنٹ لےکر پہنچے تو عمران خان کے وکلا کی ٹیم اور میڈیا نمائندوں کی ایک پوری بریگیڈ رہائش گاہ کے اندر ہی موجود تھی جسے پہلے کبھی خان صاحب کی رہائش گاہ تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔ ٹیم پہنچی تو اسے پہلے برآمدے میں موجود ایک کیمپ میں لے جایا گیا جہاں افتخار رسول گھمن جو عمران خان کے چیف سیکیورٹی افسر ہیں، ان سے بات چیت ہوئی اور پھر وہ رہائش گاہ جہاں اہلِ خانہ کے علاوہ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں ٹیم کو عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے لیے لے جایا گیا۔
ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں حکومتی سائیڈ کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو جلاؤ گھیراؤ کرنے والے 22 سو افراد کے علاوہ مطلوب 40 دہشت گردوں کی فہرست بھی دی گئی جن پر شبہ ہے کہ وہ زمان پارک کے اندر پناہ گزین ہیں۔ مذاکراتی ٹیم جب باہر نکلی تو سوالوں کی بوچھاڑ کے باوجود مجال ہے کہ انہوں نے کچھ جواب دیا ہو لیکن عمران خان کے چیف سیکیورٹی افسر افتخار گھمن نے بتایا کہ ’ٹیم کو مطمئن کردیا ہے انہیں چائے بسکٹ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اب اگر وہ دوبارہ آنا چاہیں تو آسکتے ہیں‘۔
پھر ذرائع سے خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں کہ عمران خان نے اپنی رہائش گاہ مرشد خانے میں سرچ آپریشن کرنے کی اجازت نہیں دی اور کچھ شرائط سامنے رکھیں ہیں۔بعدازاں عمران خان خود پریس کانفرنس کرنے آئے اور انہوں نے بھی واضح طور پر کہا ’سرچ آپریشن نومور‘۔ اگر انہوں نے میرے گھر کی تلاشی لینی ہے تو لاہور ہائی کورٹ نے پہلے جو طریقہ کار طے کیا تھا اسی کے تحت لی جائے، جس میں ایک نمائندہ حکومت کا اور ایک نمائندہ تحریک انصاف کا ہوگا اور ایک خاتون پولیس آفیسر ہوگی۔ اگر یہ قبول ہے تو سرچ وارنٹ لےکر آجائیں۔ جبکہ ترجمان نگران پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ سرچ آپریشن ہوگا اور 400 پولیس اہلکاروں کے ہمراہ ہوگا۔
تاہم اب فیصلہ پنجاب حکومت کو کرنا ہے کہ ویران پڑے زمان پارک میں اب بھی دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے آپریشن کرنا ہے یا ’نومور‘۔ لیکن میری رائے یہی ہے کہ اگر حکومت یہ قدم اٹھاتی ہے تو اسے کامیابی کے بجائے سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔