وزیر اعلیٰ سندھ کا مردم شماری کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ جب تک ہمیں مردم شماری میں درست نہیں گنا جاتا ہم نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ مردم شماری درست نہیں ہو رہی، چاہے اسے ڈجیٹل کہیں یا آٹومیٹڈ، میرے لیے وہ مردم شماری ٹھیک ہے جس میں ہر شخص کو گنا جائے اور مجھے تحفظات ہیں کہ گنتی صحیح نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کل مردم شماری کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا جس میں مجھے مدعو نہیں کیا گیا لیکن مجھے بتایا گیا کہ پنجاب کے سوا باقی صوبوں میں مردم شماری روک دی گئی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ جان بوجھ کر کچھ بلاکس میں ہماری آبادی کو کم دکھایا جا رہا ہے جس کی تمام چیزیں میں نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو بھیجی ہیں اور ان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مردم شماری جاری رکھنی ہے تو پورے پاکستان میں جاری رکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خوش نہیں ہیں، ہمیں درست نہیں گنا جا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں بھی مردم شماری غلط ہوئی تھی جس میں سندھ کو کم گنا گیا تھا، ہم نے اس پر بھی اعتراض کیا تھا اور اب بھی ہمیں درست نہیں گنا جا رہا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ جب تک ہمیں درست نہیں گنا جاتا ہم ان نتائج کو قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ کی گنتی 8.167 ملین جبکہ میرے حساب سے اس کی آبادی 8.73 ملین، سکھر ڈویژن کی آبادی 6.72 ملین جبکہ میرے حساب سے اس کی آبادی 7.4 ملین ہے، اسی طرح شہید بے نظیر آباد ڈویژن کی آبادی 6.28 ملین دکھائی گئی ہے جبکہ میرے مطابق اس کی آبادی 7.1 ملین ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حیدر آباد کی آبادی 12.326 ملین بتائی گئی ہے جبکہ میرے حساب سے اس کی آبادی 14.97 ملین ہے، میرپورخاص کی آبادی 5.14 ملین بتائی گئی ہے جبکہ میرے حساب سے اس کی آبادی 6.1 ملین ہے اور اسی طرح کراچی کی آبادی 19 ملین بتائی گئی جبکہ میرے حساب سے اس کی آبادی 20.3 ملین ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پورے سندھ کی آبادی درست نہیں گنی گئی، ہمارے حساب سے ہماری آبادی 65 ملین آنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کشمور، گھوٹکی جیسے کئی علاقوں میں مردم شماری نہیں ہوئی۔
پانی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمیں اپنے حصے کا پانی نہیں مل رہا اور اس وقت سندھ میں پانی کی 40 فیصد کمی ہے، ڈیم بنانے کا مقصد ہوتا ہے کہ پانی کو کنٹرول کیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو آخری علاقے کو پہلے پانی دیا جائے اور اگر سیلاب آئے تو پانی روکا جائے لیکن یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے، سیلاب آئے تب بھی سندھ ڈوبتا ہے اور پانی کی قلت ہوتی ہے تو بھی سندھ متاثر ہوتا ہے۔