قائم مقام افغان وزیر خارجہ کا پاکستان، کالعدم ٹی ٹی پی پر مذاکرات کرنے پر زور
قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مطالبہ کیا ہے کہ کالعدم تنظیم اور اسلام آباد درپیش مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کریں۔
پاکستان کے 4 روزہ دورے پر آئے امیر خان متقی نے ان خیالات کا اظہار اپنے دورے کے آخری روز انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کا تعلق ہے، ہم حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مل بیٹھیں اور اپنے طور پر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، انہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے متعدد سوالات کے جوابات دیے جب کہ تنظیم کو پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے حملوں میں ملوث اہم عسکریت پسند تنظیم میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سوچی سمجھی پالیسی کی عدم موجودگی اور اس حوالے سے نرم گوشہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان دہشت گردی کی لہر سے شدید متاثر ہوا ہے، زیادہ تر حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے، دہشت گردی کے حملوں میں یہ اضافہ کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان کابل کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے خاتمے کے بعد دیکھا گیا جس کے نتیجے میں گزشتہ سال نومبر میں جنگ بندی ختم ہوگئی اور کالعدم گروپ نے اپنے عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں حملوں کا حکم دے دیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان سے ایک نظریاتی تعلق رکھنے والی کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے لیکن افغانستان کی انتظامیہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ عسکریت پسند گروپ افغانستان کے باہر سے باہر کام کر رہا ہے۔
اپنی حکومت کے مؤقف کے مطابق امیر خان متقی نے آج بھی اس بات کی تردید کی کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے۔
افغان حکومت کی پالیسیوں کی وضاحت اور دفاع کے حوالے ہونے والی آج اپنی گفتگو کے دوران امیر خان متقی نے کہا کہ اسلامی امارت نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اسلامی امارت افغانستان دونوں فریقین کو میز پر لانے میں کامیاب رہی، ہم نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی کوئی حالیہ دو سال قبل بنائی گئی تحریک نہیں ہے بلکہ وہ ایک پرانا گروپ ہے جو کئی برس قبل قائم کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں تقریباً 80ہزار پاکستانی شہری شہادت ہوئے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں، یہ ایک پرانا مسئلہ ہے۔
تاہم افغان رہنما نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ان کی حکومت خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم نے ہمیشہ امن کے لیے اپنی پوری کوشش کی، ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، ہم اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں جنگ کے شعلے نہیں چاہتے، پاکستان میں خون خرابہ نہیں ہونا چاہیے، یہ ہماری سرکاری پالیسی ہے۔
پاکستان کے اپنے اس دورے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور افغانستان نے سیکیورٹی ایشوز پر پیش رفت کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس معاملے پر پاکستانی حکام سے بات کی، ہم پاکستان سے بات کرتے رہیں گے، ہماری درخواست ہوگی کہ مسائل کو سفارتی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، امید ہے کہ مستقبل میں حالات مزید بہتر ہوں گے۔
اپنے دورہ پاکستان کے دوران امیر خان متقی نے اپنے پاکستانی، چینی ہم منصبوں، بلاول بھٹو زرداری اور قن گینگ کے ساتھ پانچویں سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھی شرکت کی۔
سہ فریقی مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے افغان رہنما نے آج کہا کہ تینوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کوئی بھی ملک اپنی زمینی اور فضائی حدود کو دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
پاکستان کے ساتھ تجارت
دو طرفہ تجارتی تعلقات پر بات کرتے ہوئے امیر خان متقی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان نے اپنی دوطرفہ تجارت کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کے موجودہ اعداد و شمار سے 3 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کی بات آتی ہے تو ہماری بنیادی توجہ معاشی تعلقات پر ہوتی ہےجس میں باہمی رابطے، تجارت اور ٹرانزٹ کی مرکزی حیثیت ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا اور اس سے آگے معاشی طور پر جوڑنے میں اہم علاقائی مفادات ہیں۔
امیرخان متقی نے مزید کہا کہ کابل میں افغان طالبان کی حکومت کے مختصر دور میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تجارت تاریخی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم اس راستے پر چلتے رہے تو نہ صرف افغانستان اور پاکستان بلکہ پورا خطہ ہمارے تعاون کے ثمرات حاصل کرے گا۔
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سے متعلق سوالات کے جواب میں امیر خان متقی نے کہا کہ یہ پابندی مستقل نہیں ہے لیکن حکومت کے آئندہ احکامات تک یہ پابندی برقرار رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت خواتین کی تعلیم کو غیر اسلامی نہیں سمجھتی۔