وفاق کا صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی مالی اعانت روکنے پر غور
وفاقی حکومت نے سخت اقتصادی صورتحال کے پیش نظر صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی فنانسنگ ختم کرنے پر غور شروع کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی ترقیاتی منصوبوں کے بجائے آئندہ سال کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس (پی ایس ڈی پی) میں 5 اسٹریٹجک شعبوں پر توجہ مرکوز کیے جانے کا امکان ہے جن میں برآمدات، توانائی، ایکویٹی، ای-پاکستان اور ماحولیات (5 ایز) شامل ہیں۔
ایک سینیئر سرکاری عہدیدار بتایا کہ وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے آئندہ سال کے بجٹ میں شامل پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس (24-2023) میں صوبائی ترقیاتی منصوبوں پر کیپ لگانے اور اسے صرف 5 ایز تک محدود کرنے کے لیے وزیر اعظم کو ان کی رضامندی کے لیے ایک سمری بھیجی ہے۔
یہ فیصلہ وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کی زیر صدارت حالیہ اجلاس میں کیا گیا، جس کا مقصد آئندہ سال کے ترقیاتی بجٹ کو وزیراعظم کی رضامندی کے بعد حتمی شکل دینے کے لیے آگے بڑھانا ہے۔
وزیر اعظم کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی ہے کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس میں صرف اُن منصوبوں کو شامل کیا جائے جو اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہوں اور اُن منصوبوں کے سوا کسی بھی صوبائی پروجیکٹ کو اس کا حصہ نہ بنایا جانا چاہیے جن کی فنڈنگ کی ذمہ داری وفاق اور صوبوں پر 50، 50 فیصد کے تناسب سے عائد ہو۔
اجلاس کا اختتام اس اتفاق رائے کے ساتھ ہوا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس میں صوبائی ترقیاتی منصوبوں پر ہمیشہ کے لیے کیپ لگا دیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم کو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس کے بجٹ میں کمی سے آگاہ کیا گیا جو مالی سال 2018 میں تقریباً ایک کھرب روپے کے برعکس مالی سال 2022 میں تقریباً 480 ارب روپے پر آگیا اور وسائل کی کمی کی وجہ سے مالی سال 2023 میں 600 ارب روپے سے بھی کم رہ گیا، اس میں کمی کی ایک اور وجہ تقریباً 16 واجبات اور ایک دہائی قبل صوبوں کو دی گئی وزارتوں کے لیے مختص فنڈز بھی ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ وزیراعظم کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو اب اپنے سالانہ صوبائی ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ داری لینی چاہیے۔
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) صرف 5 ایز سے متعلق پروجیکٹس پر توجہ دے گی۔
عہدیدار نے کہا کہ وزیر منصوبہ بندی رواں ہفتے ذاتی طور پر وزیر اعظم کے سامنے یہ معاملہ اٹھائیں گے اور اتحادیوں کو ان کے حلقوں کی ترقیاتی ترجیحات کے حوالے سے بڑھتے ہوئے مطالبات اور قومی اہمیت کے اسٹریٹجک منصوبوں کی ضروریات کے پیش نظر اعتماد میں لیں گے۔
ایک اور عہدیدار کا خیال ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندہ حکومت شاید کسی قومی چیلنج پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہو، بالکل اسی طرح جیسے اس نے اب تک وسیع تر قومی مفاد میں کئی سخت سیاسی اور اقتصادی فیصلے کیے ہیں حالانکہ انہوں نے اس کی بھاری سیاسی قیمت ادا کی ہے۔
مالی سال 2022 میں صوبائی منصوبوں کے لیے وفاقی فنڈنگ تقریباً 310 ارب روپے تھی جو رواں مالی سال کے دوران بڑھ کر تقریباً 330 ارب روپے تک پہنچ گئی، یاد رہے کہ 18ویں آئینی ترمیم اور کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد ترقیاتی منصوبوں سمیت 16 وفاقی وزارتیں متعلقہ صوبوں کو سونپی جاچکی ہیں۔
2017 تک صحت اور آبادی کے منصوبوں کے علاوہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس کے ذریعے صوبائی نوعیت کے منصوبوں کی فنانسنگ کی حوصلہ شکنی کی گئی تاہم وفاقی بجٹ پر مالیاتی بوجھ بڑھتا ہی چلا گیا، اس کے بعد سے صوبائی منصوبے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروجیکٹس میں واپس آگئے جس کے سبب قومی اہمیت کے منصوبوں کے لیے فنڈز محدود ہوکر رہ گئے۔
وزارت منصوبہ بندی کا خیال ہے کہ اب ان منصوبوں کی مالی معاونت صوبے خود کریں، ان کے بوجھ کی وجہ سے قومی اہمیت کے وفاقی میگا پروجیکٹس تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جس وجہ سے یہ پروجیکٹس نقصان اٹھا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت کی قرضوں کی ادائیگی کی لاگت گزشتہ برسوں کے دوران غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہے اور رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران ساڑھے 3 کھرب روپے سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران تقریباً 2 کھرب 10 ارب روپے تھی، محصولات کی وصولی میں محدود اضافے کے سبب مالی وسائل کم ہوجاتے ہیں اور اس کے اثرات ہمیشہ ترقیاتی اخراجات پر پڑتے ہیں۔