وزیراعظم کا دورہ لندن، سیاسی صورتحال پر نواز شریف سے مشاورت کا امکان
وزیر اعظم شہباز شریف، شاہ چارلس سوئم کی تاجپوشی سے چند روز قبل لندن پہنچ گئے ہیں جہاں اس تاریخی موقع پر متعدد عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا ہے، تاہم شہباز شریف کے لیے یہ دورہ سیاسی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کا ایئرپورٹ پر پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان اور برطانوی سیکریٹری خارجہ کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ گورڈن میک لیوڈ نے استقبال کیا۔
وزیر اعظم 5 مئی کو لندن میں دولت مشترکہ کے رہنماؤں کی ایک تقریب میں شرکت کریں گے اور اگلے روز شاہ چارلس سوئم کی تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کریں گے۔
وزیراعظم کے دورہ لندن کو اس حوالے سے بھی اہم قرار دیا جارہا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر دورے کے دوران اپنے بڑے بھائی اور قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف سے ملک کی سیاسی صورتحال پر مشاورت کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت اور عدلیہ اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی اور پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے عدالتی حکم کے پیش نظر دونوں بھائیوں کے درمیان اس ملاقات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے مستقبل کے لائحہ عمل اور نواز شریف کی وطن واپسی سمیت کئی اہم امور زیربحث آنے کا امکان ہے۔
وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے شہباز شریف 3 بار لندن کا دورہ کر چکے ہیں، آخری بار وہ نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل نومبر 2022 میں لندن گئے تھے۔
ایسے وقت میں جب حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے ٹائم فریم پر مذاکرات کے بعد تجاویز کا تبادلہ جاری ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ وزیراعظم دورہ لندن کے دوران اپنے بڑے بھائی کو ملک کی سیاسی صورتحال سے آگاہ کریں گے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر ان سے مشاورت کریں گے۔
3 بار وزیر اعظم بننے اور ایک تجربہ کار سیاستدان کے طور پر نواز شریف کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی سے یہ مشورہ ضرور لینا چاہیں گے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن کا ردعمل کیسے دیا جائے۔
اگرچہ انتخابات کی حتمی تاریخ کا فیصلہ پی ڈی ایم میں شامل اتحادیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا جائے گا لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری جیسے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ نواز شریف کے تعلقات ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ ’شہباز شریف کے دورہ لندن کے دوران وہ یقیناً اپنے بڑے بھائی سے اِن تمام مسائل پر بات کریں گے لیکن میاں صاحب پہلے سے ہی ہر چیز سے اچھی طرح واقف اور بخوبی آگاہ ہیں اور ہم سب سے آن لائن رابطے میں ہیں‘۔
نواز شریف سے اس حوالے سے بھی رائے طلب کی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ کے ساتھ جاری کشمکش میں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، نواز شریف کی جانب سے عدلیہ کے احتساب کا مطالبہ اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے فیصلوں پر تنقید کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) مزاحمت کی پالیسی میں شدت لاسکتی ہے۔
پاکستان میں یہ تاثر موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کو اس وقت تک مؤخر کرنا چاہتی ہے جب تک معاشی صورتحال قابو میں نہ آجائے اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے کھوئی ہوئی سیاسی حمایت پارٹی کو دوبارہ حاصل نہ ہوجائے۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنما بالخصوص جاوید لطیف کا خیال ہے کہ انتخابات کی تاریخ اسی وقت طے کی جانی چاہیے جب نواز شریف کی پاکستان واپسی یقینی ہو کیونکہ سیاسی میدان میں ان کی باقاعدہ موجودگی پی ٹی آئی کے اِس بیانیے سے لڑنے کے لیے اہم سمجھی جاتی ہے جو پنجاب میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔
گزشتہ روز لندن میں اسٹین ہاپ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے تصدیق کی کہ شہباز شریف کی لندن آمد پر ان سے ملاقات ہوگی۔
صحافیوں کی جانب سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ عمران چل سکے یا نہ چل سکے، ملک تو چلے گا۔