عدلیہ اپنے ماضی کا حساب دے، فیصلے کرنے والوں کا ٹرائل ہونا چاہیے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ اپنے ماضی کا حساب دے، کمیٹی بنا کر فیصلے کرنے والوں کا ٹرائل ہونا چاہیے تاکہ ہماری نئی نسلوں کو ان کی تاریخ کا پتا لگے۔
اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت جاری قومی اسبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ایوان نے جتنی قوم و ملک کی خدمت کی، کسی اور ادارے نے نہیں کی، آج ایک ادارہ ہم نے اس ایوان کی کارروائی کی تفصیلات طلب کر رہا ہے، ایک نہیں سو دفعہ پروسیڈنگز طلب کریں، ہماری کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی، ہماری کارروائی راز نہیں ہوتی، میں بول رہا ہوں، یہ ٹی وی پر سنی جا رہی ہے، ہمیں سپریم کورٹ کا احترام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ دو ججوں نے کیس سے خود کو الگ کرلیا ہے اور جب دوبارہ بینچ بنایا گیا تو پھر ان ہی دو ججوں کو شامل کرلیا گیا، بلکہ اسی بینچ کو برقرار رکھا گیا اور ان سے تین دو کا فیصلہ کروالیا۔
ان کا کہنا تھا میری اسپیکر سے درخواست ہے کہ وہ بطور کسٹوڈین آف دی ہاؤس سپریم کورٹ کو خط لکھیں اور اس کارروائی کی تفصیلات طلب کریں، یہ ہمارا حق ہے، یہ ادارہ آئین اور عوام کی بالادستی کا علمبردار ہے، اس کا محافظ ہے۔
’ایوان کا فرض بنتا ہے سیاسی جماعت کی سہولت کاری کے آگے دیوار بن جائے‘
انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں بیٹھے 15 آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں، 15 آدمیوں میں سلوک نہیں ہے، ہمیں مذاکرات کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے، ہم مذاکرات کر رہے ہیں، عدلیہ ہمیں بتاتی ہے کہ مذاکرات کریں، پہلے وہ خود مذاکرات کریں، پہلے اپنی تو بیٹھ کر اندر پنجائیت لگائیں، اس کے بعد ہمیں ہدایات جاری کریں، مذاکرات، پنجائیت، محفلیں لگانا یا ہدایات دینا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، آئین کے تحت ان کے فرائض میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ وہ پنجائیت لگائیں گے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا جس طرح آج ہو رہا ہے، ہمیں اپنے ادارے کا دفاع کرنا پڑے گا، ایک سیاسی پارٹی کو پہلے 2018 میں سہولت کار ملے، انہیں اب پھر سہولت کار مل گئے ہیں، ایوان میں بیٹھے ارکان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سہولت کاری کے آگے دیوار بن جائیں۔
’سپریم کورٹ بتائے اپنی تاریخ درست کرنے کے لیے کیا کرے گا‘
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ وزیر اعظموں کی گردنیں لینے کا رواج ختم ہونا چاہیے، ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے پھانسی دی، دو وزارائے اعظم کو نمائندگی کے حق سے محروم کیا، نواز شریف کو تاحیات نا اہل کردیا گیا، ہمیں اپنے وزیراعظم کا تحفظ کرنا چاہیے، ہمیں چاہیے کہ اپنے اختلافات بھلا اس کا تحفظ کریں، وہ کسی بھی جماعت کا ہو، ہمیں اپنے ادارے کے وقار کے لیے یہ سیاسی جنگ لڑنی پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جنگیں لڑتے ہیں، ہمیں کئی مرتبہ گھر بھیجا گیا، اس ادارے کی گردن لی گئی، اس ادارے کا خون ہوا، کیا اس کا کوئی حساب دے گا، جن لوگوں نے آئین بنانے کا اختیار ایک وردی والے کو دیا، پرویز مشرف کو آئینی ترمیم کرنے کی اجازت دی، ایک شخص نے اپنی ذاتی غرض کے لیے آئین توڑ دیا اور 10 سال مسلط رہا۔
’ آئین جو حکم دیتا ہے، وہ ہوگا، آئین سے ماورا کوئی چیز نہیں ہوگی’
ان کا کہنا تھا کہ کسی ادارے نے جمہوریت یا آئین کا خون نہیں کیا، یہ فرد واحد تھے جن کی اقتدار کی خواہش تھی، جسٹس منیر سے لے کر ذوالفقار بھٹو کے کیس تک، اس کے بعد لاتعداد کیس ہیں، ان کا کوئی حساب دے گا، کیا ان کیسز کی پروسیڈنگز منگوائی جائیں گی، سپریم کورٹ بتائے ان پروسیڈنگز کے حوالے سے اپنا ماضی پاک صاف کرنے کے لیے، اپنی تاریخ درست کرنے کے لیے کیا کرے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) باہم دست و گریبان تھے، پھر بےنظیر شہید اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کیا، ہمارے سیاسی ماحول میں دانش مندی آئی، اس کے بعد 2 اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی، تیسری اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے لیکن یہ ادارہ کوشش کر رہا ہے کہ مدت پوری نہ ہو، یہ کہہ رہا ہے کہ فلاں تاریخ کو الیکشن کرالو، فلاں تاریخ کو الیکشن کرالو، یہ ایوان آئین کا محافظ ہے، جو آئین حکم دیتا ہے، وہ ہوگا، آئین سے ماورا کوئی چیز نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت حساب دیے ہیں، اب ہمیں بھی حساب دیا جائے، ہم عوام کو حساب دیتے ہیں، ان کے ہاتھ ہمارے گریبان پر ہوتے ہیں، ہم سے وہ ہماری خدمت کا حساب مانگتے ہیں، دو چھٹیاں ہوتی ہیں تو ہم اپنے حلقوں میں واپس چلے جاتے ہیں، عوام سے رابطے میں رہتے ہیں۔
’ہم ہر روز حساب دیتے ہیں، عدلیہ اپنے ماضی کا حساب دے‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جب نکلتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے پروٹوکول ہوتا ہے، شاہراہ دستور پر ٹریفک روک دیا جاتا ہے، کہا اس سڑک پر کسی وزیر کے لیے کبھی ٹریفک روکا گیا، ہمیں تنخواہ صرف ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے، ان سے پوچھا جائے ان کی تنخواہ کتنی ہے، اس کے علاوہ تاحیات تمام مراعات بھی ملتی ہیں، ان کو پلاٹ بھی ملتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے اور میرے والد کو اسمبلی میں آتے ہوئے 72 سال ہوگئے ہیں، ایک پلاٹ نہیں ملا، اگر ان کو بہتر سال ہوجاتے تو گیارہ، بارہ پلاٹ ہوتے، 72 پلاٹ ہوتے، اس کے بعد اسی طبقے اور برادری کے لوگ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے میں سیاسی جماعتوں کے ٹکٹوں کے پیسے پکڑ رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کی تاریخ کا حساب دیا جائے، یہاں اسمبلی میں خصوصی کمیٹی بنائی جائے، ایک ہاؤس کمیٹی بنائی جائے جو ذوالفقار بھٹو کی شہادت، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کا اور آئین کی پامالی کا عدلیہ سے حساب لے، اس عدلیہ سے حساب لے، یہ اپنے ماضی کا حساب دے، ہم اپنے آباد و اجداد کا حساب دے رہے ہیں، ہر روز دیتے ہیں۔
’جنگ لڑنی ہے تو پھر جنگ ہوگی، پارلیمنٹ ہتھیار نہیں ڈالے گی‘
وزیر دفاع نے کہا کہ کہاں آئین میں لکھا ہے کہ چیف جسٹس ڈیم فنڈ اکٹھا کرے، یہ قوم کو ڈیم فول بنانے والی بات ہے، اپنے آئینی حدود میں رہ کر اپنے اختیارات استعمال کریں، ہم نے بھی آمروں کی حمایت کی لیکن اس کی قیمت ادا کی، انہوں نے آمروں کی حمایت کی لیکن کوئی قیمت ادا نہیں کی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ مجھے بتائیں پاکستان میں کتنے جج نا اہل ہوئے، صرف دو یا تین جج نا اہل ہوئے، باقی ججز کہاں ہیں جنہوں نے آمروں کا ساتھ دیا، جو لوگ اس دنیا میں نہیں ہیں ان پر مقدمہ چلایا جائے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین سے غداری کی تھی، اپنے عہدوں سے غداری کی تھی، جو زندہ ہیں ان پر بھی مقدمہ بنائیں، یا کم از کم اسپیکر کمیٹی بنائیں اور انہیں، آئین شکنی پر انگھوٹے لگانے والوں کی باقیات جو ہیں، ان کو اس میں طلب کریں، یہ ہمارا استحقاق ہے، پاکستان کے عوام جواب مانگتے ہیں کہ 75 سال بعد بھی ہم سرگرداں ہیں، ہم سے منزل گم ہوچکی ہے۔
’پاکستان کی عدلیہ نے نا قابل معافی گناہ کیے ہوئےہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے نہیں ہوگا، اگر جنگ لڑنی ہے تو پھر جنگ ہوگی، یہاں پر پارلیمنٹ ہتھیار نہیں ڈالے گی، پارلیمنٹ اپنے وزیراعظم کو بلی نہیں چڑھائے گی، وہ وقت چلا گیا جب وزیراعظم بلی چڑھائے جاتے تھے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ حد ہوگئی ہے کہ آپ لوگ ستمبر کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ دو چار اور تقرریاں ہوجائیں، ان کی فرمائش پر 2 تقرریاں اعظم نذیر تارڑ نے تسلیم کیں اور معذرت بھی کی، ان کو خوش کرنے کے لیے ہم اپنی حدود سے تجاوز کیا، یہ سلسلہ اب جاری نہیں رہ سکتا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ نے نا قابل معافی گناہ کیے ہوئےہیں، دنیاوی نقطہ نظر سے کہہ رہا ہوں کہ ان کے جرائم کی بخش نہیں ہوسکتی، اس طرح سے نہیں ہوگا، ان کو حساب دینا ہوگا، اگر کوئی اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کی واپسی کے لیے سازش کر رہا ہے تو پارلیمنٹ کو کھڑا ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ زمان پارک میں ایک بچے سے توہین آْمیز تقریر کرائی گئی، کسی کی غیرت نہیں جاگی، ہم پر فیض آباد دھرنا کا جو فیصلہ آیا تھا، اس پر ہم پر جو فتوے لگائے گئے تھے، کیا قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر عمل در آمد ہوا تھا، سیاسی رہنما اور جماعتیں آپس میں دست و گریبان ہوتے ہیں، گزشتہ دور میں خواتین کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
’قاضی فائز عیسیٰ پر ایجنسیز کا حملہ تھا لیکن کلہاڑا تو عدلیہ کے ہاتھ میں تھا‘
انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے کیا کیا، اپنے برادر جج کی بیوی کو بلا کر عدالتوں کے چکر لگوائے، اس کے بچوں کو خجل خراب کرتے رہے، ان لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی، کس کے کہنے پر کی، حامد میر کئی لوگوں کے نام لیے لیکن کلہاڑا تو عدلیہ کے ہاتھ میں تھا، ان کی برادری اور گھر کے لوگوں کے ہاتھ میں تھا، کسی کو شرم نہیں آئی کہ ایک شخص کے آئین و قانون، ضمیر کے مطابق دیے گئے فیصلے پر عمل در آمد نہیں کرتے اور اس کے اہل خانہ کو عدالتوں میں خوار کرتے ہو، اس کے بارے میں جعلی خبریں چھاپتے ہو، ہمیں لیکچر دیتے وقت اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آپ کیا کرتے رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ کیا آپ خود اس عدلیہ کی عزت کرتے ہیں، آپ نے ایک کولیگ کے لیے، اس کے لیے ڈھال نہ بنیں، اس کے اوپر انٹیلی جنس ایجنسیز کا حملہ تھا، کیونکہ جنہوں نے دھرنا کروایا تھا، وہ اس دھرنے کو تحفظ دے رہے تھے، اس فیصلے کی مزاحمت کر رہے تھے جو قاضی فائز عیسیٰ نے دیا تھا، اس جرم قاعدے، قانون اور ضمیر کے مطابق فیصلہ دیا تھا، کسی کی ڈکٹیشن کے اوپر فیصلہ نہیں دیا۔
’اس گفتگو کا ریکارڈ دیں جس میں کہا گیا 2 ججوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا، پھر تین دو کا فیصلہ آیا‘
انہوں نے کہا کہ جسٹس شوکت صدیقی کو دیکھ لیں اس نے برملا کہا، اس کو خجل خراب کردیا، اس کی تنخواہ بند کردی، اسی عدلیہ نے اس کی پریکٹس کا لائسنس کینسل کردیا، یوم حساب آنا چاہیے، احتساب ہونا چاہیے، عوام کہتے ہیں کہ ہم ان کے نمائندے تحفظ نہیں دے رہے، چند مٹھی بھر لوگ ہمیں یرغمان نہ بنالیں، کبھی کوئی دھمکی دی جاتی ہے، کبھی کوئی دھمکی دی جاتی ہے، اس طرح نہیں چلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ کمیٹی بنائی جائے اور جو بھی عدلیہ کے فیصلے ہیں، وہ فیصلے کرنے والے دنیا میں ہیں یا نہیں ہیں، ان کا ٹرائل ہونا چاہیےتا کہ ہماری نئی نسلوں کو پتا لگے کہ ان کی کیا تاریخ ہے، ہماری تاریخ سب کے سامنے ہے، ہمیں ہماری اوقات عوام یاد دلا دیتے ہیں، ان کو بھی تو بتائیں کہ ان کی کیا اوقات ہے، 1947 سے لے کر اب تک انہوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں، آئین کی بات کرتے ہیں، آئین پر جتنے حملے انہوں نے کیے ہیں، اس پارلیمنٹ نے نہیں کیے، ہم قصوروار ہیں، ہم اس پر سب سے معافی مانگتے ہیں، ان کو بھی معافی مانگ دیں، ان کا بھی احتساب ہونے دیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ اسپیکر سے درخواست کرتا ہوں کہ مہربانی کریں، ان کو لے کر آئیں کہ ہمیں ریکارڈ دیں اس گفتگو کا جب انہوں نے کہا تھا کہ دو ججوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا اور پھر تین دو کا فیصلہ آیا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات سے متعلق تحریک اتفاق رائے سے منظور
سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے بیٹے کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات سے متعلق تحریک جےیو آئی (ف) کی رہنما شاہدہ اختر علی نے پیش کی۔
تحریک کے متن کے مطابق سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی آڈیو سامنے آئی ہے، مبینہ آڈیو کےمعاملہ کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں، نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل دی جائے۔
ایوان نے آڈیو لیک معاملے کی تحقیقات کی تحریک کثرت رائے سے منظور کر لی۔
شاہدہ اختر علی نے کہا کہ کمیٹی مقررہ میعاد کے اندر تحقیقات مکمل کرے، نجم ثاقب سے تحقیقات کیلئے اداروں سے تعاون لیا جائے، نجم ثاقب کی آڈیو کا فرانزک کرایا جائے، کمیٹی کے ممبران اور قواعد و ضوابط (ٹی او آر) طے کئے جائیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آ گئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوزد چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں جس پر نجم ثابق کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہوئی ہے۔
اس کے بعد نجم ثاقب پوچھتے ہیں کہ اب بتائیں اب کرنا کیا ہے؟ جس پر ابوزد بتاتے ہیں کہ ابھی ٹکٹ چھپوا رہے ہیں، یہ چھاپ دیں، اس میں دیر نہ کریں، ٹائم بہت تھوڑا ہے۔
پھر نجم ثاقب ان کو ثاقب نثار سے ملنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بس بابا کو ملنے آجانا شکریہ ادا کرنے کے لیے، اور کچھ نہیں جس پر ابوذر کہتے ہیں کہ یقیناً ، کیسی بات کررہے ہیں۔
نجم ثاقب کہتے ہیں کہ وہ 11 بجے تک واپس آ جائیں گے، ان کو جھپئی ڈالنے آجانا بس، انہوں نے بہت محنت کی ہے، بہت محنت کی ہے۔
اس کے بعد ابوذر کہتے ہیں کہ اچھا میں سوچ رہا تھا کہ پہلے انکل کے پاس آؤں یا شام کو ٹکٹ جمع کراؤں جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ وہ مرضی ہے تیری، لیکن آج کے دن میں مل ضرور لینا بابا سے جس کے بعد ابوذر کہتے ہیں کہ یقیناً، سیدھا ہی ان کے پاس آنا ہے۔