• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:09pm
  • LHR: Maghrib 5:03pm Isha 6:30pm
  • ISB: Maghrib 5:03pm Isha 6:32pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:09pm
  • LHR: Maghrib 5:03pm Isha 6:30pm
  • ISB: Maghrib 5:03pm Isha 6:32pm

پرویز الہٰی کے گھر پر ایک اور چھاپہ، 15 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور

شائع May 2, 2023
راسخ الہٰی کے وکیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات گجرات میں پرویز الہٰی کے گھر پر ایک اور چھاپہ مارا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
راسخ الہٰی کے وکیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات گجرات میں پرویز الہٰی کے گھر پر ایک اور چھاپہ مارا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی 15 مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔

دورانِ سماعت پرویز الہٰی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر مقدمات درج کیے جارہے ہیں۔

جس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی اور نیا مقدمہ درج ہوا ہے تو اس کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دوبارہ دائر کریں۔

وکیل نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اینٹی کرپشن کے درج مقدمے میں پرویز الہٰی کی حفاظتی ضمانت منظور کی۔

پرویز الہٰی کے گھر چھاپے کی تفصیلی رپورٹ طلب

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پولیس کے سربراہ او اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے گھر پر مارے گئے چھاپے سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ احکامات پرویز الہٰی کے بیٹے راسخ الہٰی کی جانب سے اپنے والد کے گھر پر چھاپے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیے گئے۔

کیس میں چیف سیکریٹری کے ذریعے حکومت پنجاب، پنجاب کے اے سی ای کے ڈائریکٹر جنرل اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، لاہور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور ماڈل ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ کو فریق بنایا گیا۔

پرویز الہٰی کے دوسرے بیٹے مونس الہٰی کے مطابق گجرات کے کنجاہ ہاؤس پر حکام کی جانب سے ایک اور چھاپہ مارے جانے کے چند گھنٹے بعد یہ پیش رفت ہوئی۔

انہوں نے آج ایک ٹوئٹ کر کے بتایا کہ پنجاب پولیس نے گجرات کے کنجاہ ہاؤس پر ایک بار پھر چھاپہ مارا، مجھے ان لوگوں کو رسائی دینے کا کہا گیا لیکن ان کے پاس اب بھی سرچ وارنٹ نہیں تھے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے راسخ الہٰی کی درخواست پر سماعت کی جس کے دوران ان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اے سی ای اور پنجاب پولیس کے حکم پر روزانہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’نئی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج ہونے کے بعد روزانہ چھاپے مارے جا رہے ہیں‘۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ تفصیلی رپورٹ پیش ہونے تک حکام کو پرویز الہٰی کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف نیا مقدمہ درج کرنے سے روکا جائے، تاہم عدالت نے درخواست مسترد کردی۔

جسٹس سرفراز ڈوگر نے استفسار کیا کہ عدالت کس قانون کے تحت گرفتاری سے روک سکتی ہے؟ جب تک رپورٹ پیش نہیں کی جاتی ہم آپ کی بات کو کیسے مان سکتے ہیں؟

وکیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات گجرات میں پرویز الہٰی کے گھر پر ایک اور چھاپہ مارا گیا۔

بعد ازاں عدالت نے پنجاب اے سی ای کے ڈائریکٹر جنرل اور پنجاب کے انسپکٹر جنرل سے تفصیلی رپورٹ طلب کی اور دونوں کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی ہدایت کی۔

گھر پر چھاپے کا ذمہ دار محسن نقوی ہے، پرویز الہٰی

پی ٹی آئی کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے ضمانت منظوری کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وقاص حسن پر الزام عائد کیا کہ گھر پر چھاپے میں ان کا کردار ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اے سی ای کے عہدیدار کسی مخصوص فرقے کے احکامات پر ان کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں کیونکہ وقاص حسن ایک مخصوص فرقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ہم نے ختم نبوت کا قانون اسمبلی سے منظور کرایا تھا۔

پی ٹی آئی کے صدر نے بتایا کہ انتخابات کسی بھی قیمت پر ہوں گے اور پی ٹی آئی کلین سوئپ کرے گی اور مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہوجائے گا۔

عدالت میں دائر درخواست

خیال رہے کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور پولیس نے جمعے کو رات گئے پرویز الہٰی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔

اس حوالے سے عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ پرویز الہٰی کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دائر مقدمے میں 27 اپریل کو عبوری ضمانت دی گئی تھی۔

عدالت کے واضح احکامات کے باوجود فریقین نے 28 اپریل کو ’300 سے 400 پولیس اہلکاروں کے ساتھ‘ درخواست گزار کے گھر پر چھاپہ مارا اور بکتر بند گاڑی سے مرکزی گیٹ توڑ دیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ اہلکار بغیر کسی سرچ وارنٹ کے داخل ہوئے اور ’اس طرح پرتشدد انداز اختیار کیا گیا جیسے وزیرستان یا پنجاب کے قبائلی علاقوں میں آپریشن کیا جا رہا ہو‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ پورے چھاپہ مار کارروائی کو میڈیا نے نشر کیا جس سے عوام میں بڑے پیمانے پر ’خوف کا احساس‘ پیدا ہوا اور کم از کم 30 ملازمین کو گرفتار بھی کیا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار کے گھر پر چھاپے بغیر کسی قانونی اختیار کے مارے گئے اور اس لیے غیر قانونی تھے۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ چھاپے حکمراں جماعتوں کے حکم پر سیاسی انتقام کی خاطر ’بد نیتی اور مذموم مقاصد‘ کے ساتھ مارے گئے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار کے والد کو گرفتار کرنے کے مقصد سے ان کے گھر پر چھاپے (قانون) کی دفعات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارے گئے کیونکہ مدعا علیہان درخواست گزار کے والد کی ضمانت منظور ہونے کے سبب ان کو 6 مئی تک گرفتار کرنے کے اہل نہیں تھے۔

عدالت سے استدعا کی گئی کہ 28 اپریل کے چھاپے کو قانون اور درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ ظہور الہٰی روڈ کو ’پولیس کے غیر قانونی قبضے‘ سے خالی کرانے کا حکم صادر کرے اور مدعا علیہان کو درخواست گزار کا گھر خالی کرنے کی ہدایت کرے۔

ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی گئی کہ حکام کو درخواست گزار کے گھر پر چھاپہ مارنے اور درخواست کا فیصلہ ہونے تک پرویز الہٰی کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے سے روکے۔

پرویز الہٰی کے گھر پر چھاپہ

خیال رہے کہ جمعہ کی رات دیر گئے اے سی ای اور پولیس حکام نے لاہور میں الہٰی کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تھا، چھاپہ مار ٹیم نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی گلبرگ رہائش گاہ کا مرکزی گیٹ توڑنے کے لیے بکتر بند گاڑی کا استعمال کیا اور گھر سے 12 افراد کو گرفتار کر لیا جن میں زیادہ تر ان کے ملازمین تھے، اس میں خواتین پولیس اہلکاروں نے کچھ خواتین کو بھی حراست میں لیا تھا۔

پولیس اہلکاروں نے گھر کی اچھی طرح تلاشی لی لیکن پرویز الہٰی نہ ملے، انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی ملحقہ رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش بھی کی تاہم ان کے بیٹوں نے ٹیم کی مزاحمت کی۔

سرچ آپریشن ہفتے کی رات گئے کم از کم 2 بجے تک جاری رہا اور پولیس پرویز الہٰی پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہی، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ گھر میں نہیں تھے۔

اس کے بعد پنجاب پولیس نے اے سی ای اہلکاروں پر مبینہ طور پر حملہ کرنے کے الزام میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 20 دسمبر 2024
کارٹون : 19 دسمبر 2024