• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

مردم شماری نئے تنازع کا شکار، حکومتِ سندھ نے بھی تحفظات کا اظہار کردیا

شائع May 1, 2023
پی ٹی آئی نے بھی مردم شماری کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
پی ٹی آئی نے بھی مردم شماری کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی زیر قیادت حکومت سندھ نے مردم شماری میں صوبے کے ان حصوں کو خارج کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جہاں آبادی میں اضافے کی شرح ایک خاص معیار سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے اور متنبہ کیا کہ اگر اس کے تحفظات کو دور نہ کیا گیا تو سندھ مردم شماری کے نتائج کو مسترد کردے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتِ سندھ کی جانب سے یہ تشویش اُس وقت سامنے آئی جب وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ جن علاقوں میں آبادی میں اضافہ عام آبادیاتی رجحانات کے مطابق نہیں ہے وہاں 15 مئی تک ساتویں آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری کی فیلڈ ویریفکیشن/کوریج مکمل کی جائے اور قدرتی رجحانات ظاہر کرنے والے تمام علاقوں میں فیلڈ آپریشن بند کیا جائے۔

دوسری جانب وفاقی حکومت کے اتحادی اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے بھی مردم شماری کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو سخت الفاظ میں لکھے گئے خط میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ اگر مردم شماری پر حکومتِ سندھ کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو نتائج مسترد کر دیے جائیں گے۔

مراد علی شاہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’مردم شماری کے فیلڈ آپریشنز کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے 30 اپریل کو ہونے والے اجلاس کے بعد صوبائی حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ جن اضلاع/تحصیلوں میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک خاص معیار سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے وہاں مردم شماری کی سرگرمیاں فوری طور پر بند کر دی جائیں گی، ہمیں اس فیصلے پر سخت تحفظات ہیں کیونکہ بینچ مارکنگ کا یہ فیصلہ مکمل طور پر من مانی ہے‘۔

اپنے اعتراضات کی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ ’تمام اضلاع/تعلقہ کی آبادی میں اضافے کو ایک واحد عالمگیر معیار پر پرکھنا غلط ہے، اگر اس طرح کا بینچ مارک عالمی سطح پر لاگو ہوتا تو پھر مردم شماری کرانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ آبادی میں اضافے کا حساب اس معیار کی بنیاد پر آسانی سے لگایا جا سکتا تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ کے تقریباً تمام اضلاع میں بہت سے ایسے بلاکس ہیں جن کی ابھی تک مکمل گنتی نہیں ہو سکی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ سندھ کے تمام اضلاع میں مردم شماری کا عمل اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک کہ ہر گھر اور فرد شمار نہیں ہو جاتا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیر منصوبہ بندی نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ساتویں آبادی اور خانہ شماری کی فیلڈ گنتی کی سرگرمیوں میں بار بار توسیع کا سخت نوٹس لیا ہے، لہٰذا آبادی میں غیر معمولی اضافے کے حامل علاقوں میں ٹارگٹڈ تصدیق اور گنتی کی جائے جہاں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے پاکستان شماریات بیورو کے ذریعے تیار کردہ ڈیجیٹل سسٹمز کا استعمال کرتے ہوئے اس حوالے سے خلا کی پہلے ہی نشاندہی کی جا چکی ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اسلام آباد اور پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے شہری علاقوں میں جن علاقوں کا احاطہ نہیں کیا گیا اور جن کا کم احاطہ کیا گیا، وہاں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے خصوصی کوششیں کی جائیں اور تمام صوبوں میں مردم شماری مکمل کرنے کے لیے یکساں ڈیٹا پر مبنی پالیسی اپنائی جائے۔

انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ڈیٹا بروقت حوالے کرنے کے لیے مردم شماری کا عمل 15 مئی تک مکمل کرنے پر زور دیا۔

دوسری جانب وفاق میں پی ڈی ایم حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے الزام عائد کیا کہ مردم شماری میں سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی کو کسی غلطی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک خاص منصوبے کے تحت کم دکھایا گیا ہے۔

ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ’میڈیا اور حکومتی اداروں کے ذرائع سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی کو کم دکھایا جا رہا ہے‘۔

لاہور میں پی ٹی آئی سینیٹر اعجاز چوہدری نے مردم شماری کو فراڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پہلے ہی مردم شماری کو مسترد کر چکی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ سیاسی جماعتیں مردم شماری کے نتائج کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، امپورٹڈ حکومت مردم شماری کے عمل میں بھی دھاندلی میں مصروف ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024