وکلا کو کسی خاص طبقے کے بجائے آئین کے ساتھ کھڑا ہونے کا مشورہ
احکومت اور عدلیہ کے درمیان جاری کشمکش کے دوران قانونی برادری کے رہنماؤں نے تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنے کا مشورہ دیا ہے اور وکلا سے کہا ہے کہ وہ کسی خاص طبقے کے ساتھ نہیں بلکہ آئین کے ساتھ کھڑے ہوں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ ہونے کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے اور بطور ادارہ اسے کمزور نہیں ہونا چاہیے۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں بلوچستان بار کونسل (بی بی سی) کے زیر اہتمام نیشنل لائرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک میں سیاسی اور آئینی بحرانوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج جمہوری نظام خطرے میں ہے اور عدلیہ ’غیر جمہوری طاقتوں کے آلے‘ کے طور پر کام کر رہی ہے۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ وکلا مضبوط اور مستحکم کردار ادا کریں اور قومی مفاد میں آگے بڑھیں، یہ اعزاز کی بات ہے کہ چاہے وہ آئینی بحران ہو، مارشل لا ہو یا ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی ہو بلوچستان کے وکلا نے پہل کی۔
وکلا رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی ترقی سنیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہیے، اداروں میں ریٹائرڈ ججز، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی دوبارہ تقرری پر پابندی لگائی جائے تاکہ نئے اور توانا افراد کو خالی آسامیوں پر رکھا جائے۔
اس مو قع پر پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک سیاسی اور آئینی بحران سے گزر رہا ہے اور ’پاکستان کے چیف جسٹس اور ہم خیال ججوں کا کردار افسوسناک ہے‘۔
خیبرپختونخوا بار کونسل کے سابق رکن احمد فاروق خٹک نے کہا کہ وکلا کی تحریک اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب اس کا آغاز بلوچستان سے ہوتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئینی اور قانونی معاملات سپریم کورٹ کے تین ججوں پر چھوڑ دیے گئے ہیں، وہ اپنے آپ کو جج، قاضی یا منصف نہیں بلکہ ’ پولیس آفیسر’ سمجھتے ہیں۔
احمد فاروق خٹک نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 6 جونیئر جج بیٹھے ہیں اور میں موجودہ حکومت کی مذمت کرتا ہوں کیونکہ اس نے دباؤ میں جونیئر ججوں کے لیے ووٹ دیا، سپریم کورٹ میں جونیئر ججوں کی ترقی سے قوم آئینی بحران کا شکار ہے۔
انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر ’آمر (آرمی چیف) کو تین سال کی توسیع‘دینے کا الزام لگایا، انہوں نے مزید کہا کہ ثاقب نثار اور پسندیدہ وکلا نے ہمیشہ ساتھی ججوں کی بے عزتی کی، وکلا کو ایسی بے عزتی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سینئر نائب صدر یوسف مغل اور اسلام آباد بار کونسل کے عادل عزیز نے کہا کہ سپریم کورٹ سچائی کو برقرار رکھے اور انصاف پر مبنی فیصلے کرے۔
سندھ بار کونسل کے وائس چیئرمین اظہر عباسی نے کہا کہ ہم کسی کے خلاف نہیں لیکن سپریم کورٹ پر لگائے جانے والے اعتراضات دور کرنے کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں تاکہ عدالت عظمیٰ کا وقار بحال ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’از خود نوٹس اختیارات اور بینچ میں پسندیدہ افراد کو شامل کرنے پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔‘
بلوچستان بار کونسل کے سابق چیئرمین سلیم لاشاری نے کہا کہ آئین کی بالادستی تب قائم ہو گی جب تمام ادارے اپنی حدود میں رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آئینی حدود سے تجاوز کیا جائے تو آئین کی بالادستی باقی نہیں رہتی، سپریم کورٹ ملک کی آخری عدالت ہے جس کے لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے، ’ججز کلب‘ تب بنتا ہے جب جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں ترقی دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے وکلا کو کسی خاص طبقے کے بجائے آئین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔