سندھ بار کونسل کی بھی جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست
خیبرپختونخوا بار کونسل کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں سپریم کورٹ کے موجودہ جج کے خلاف شکایت درج کرانے کے بعد سندھ بار کونسل نے بھی مس کنڈکٹ کے الزامات کی تحقیقات کی درخواست کر دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ بار کونسل نے الزام عائد کیا کہ سید مظاہر علی اکبر نقوی کے افعال سے نہ صرف سپریم کورٹ کے وقار کو مجروح ہوا بلکہ اس ساکھ کو بھی ٹھیس پہنچائی۔
شکایت گزار کا خیال تھا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کی مبینہ خلاف ورزی جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے کافی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ جج کے خلاف گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریباً نصف درجن شکایات دائر کی جاچکی ہیں۔
سندھ اور خیبرپختونخوا بار کونسلز کے علاوہ پاکستان بار کونسل، لاہور سے تعلق رکھنے والے سوشل ایکٹیوسٹ میاں داؤد ، وکلا فورم مسلم لیگ (ن) اور ایک شہری غلام مرتضیٰ خان نے بھی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ اور آمدن سے زائد اثاثوں کی شکایات درج کرائی تھیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مارچ 2020 میں سپریم کورٹ میں ترقی دی گئی تھی۔
حالیہ درخواست میں سندھ بار کونسل نے 2014 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا جو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز احمد چوہدری پر مشتمل بینچ نے دیا تھا جس میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے متعلق کچھ آبزرویشن دی تھی جو اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا تھا کہ ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ فوری طور پر مقدمے میں غیر قانونی حکم صادر کرتے ہوئے ماہر جج (جواب دہندہ) کی جانب سے استعمال کی گئی صوابدید ہمیں کچھ مشکوک دکھائی دیتی ہے کیونکہ اسی بنیاد پر سزا کی معطلی کی دوسری درخواست خارج ہونے کے بعد صرف جواب دہندہ میں فرق تھا اور اسی ریلیف کے لیے تیسری درخواست میں مذکورہ فریق کی جانب سے تیسرے وکیل عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
سندھ بار نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ کے مشاہدے کے بعد جسٹس مظاہر نقوی نے نظرثانی کی درخواست دائر کی تھی جس میں ان کے خلاف بینچ کی جانب سے دیے گئے سخت ریمارکس کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس چوہدری اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل بینچ کے سامنے نظرثانی کی سماعت ہوئی تھی۔
بینچ نے نہ صرف نظرثانی کی درخواست خارج کر دی تھی بلکہ یہ بھی کہا کہ’ ہائی کورٹ کا ایک جج ذاتی طور پر اس عدالت سے رجوع اور نظرثانی کا مطالبہ کر رہا ہے، یہ یقینی طور پر غیر معمولی ہے اور یہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تجویز کردہ ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل 4 کی دفعات کے پیش نظر بہت سے لوگوں میں اعتراضات جنم لے سکتے ہیں۔
دوسری جانب شکایت میں کہا گیا کہ حال ہی میں کچھ آڈیو ریکارڈنگز، جو مبینہ طور پر معروف سیاست دانوں اور بعض وکلا کے ساتھ جج کی بات چیت پر مبنی ہیں، سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کر رہی ہیں۔
سندھ بار کونسل نے بتایا کہ آڈیو ریکارڈنگ کی سرکاری طور پر تردید نہیں کی گئی۔