’اندازہ لگانا مشکل نہیں آڈیو لیکس کے پیچھے کون ہے‘
آڈیو ٹیپ لیکس کے اس نئے سلسلے نے ملک میں اقتدار کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ لیک ہونے والی نجی ٹیلیفونک گفتگو کو نہ صرف سیاسی حریفوں بلکہ ریاستی اداروں اور سرکاری عہدوں پر بیٹھی شخصیات کے خلاف بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ ججز اور ان کے اہلِ خانہ بھی اس سے سے محفوظ نہیں۔ یہ معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس غیرقانونی فون ٹیپنگ اور آڈیو لیکس کے پیچھے کون ہے۔ لگتا یہ ہے کہ عوامی دفاتر کے اندر اور باہر کسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ نئی آڈیو لیک میں مبینہ طور پر دو خواتین کے درمیان نجی گفتگو ہے جن میں سے ایک خاتون کو منصف اعلیٰ کا رشتے دار بتایا جاتا ہے۔ اس آڈیو نے ایک نئے سیاسی جھگڑے کو جنم دیا ہے۔ آڈیو لیک میں کی جانے والی مبینہ گفتگو موجودہ صورتحال اور پنجاب کے انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے گرد گھومتی ہے۔
اس آڈیو لیک کا وقت بھی اہم ہے۔ یہ گفتگو ایک ایسے وقت پر لیک ہوئی ہے کہ جب چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بینچ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کرے گا۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ کیس، 14 مئی کو انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان اور پارلیمنٹ کو آمنے سامنے لے آیا ہے۔ اس صورت حال نے اداروں کے تصادم کو سنگین بنادیا ہے جس سے ملک میں سیاسی بحران خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت ان آڈیو لیکس کو چیف جسٹس کے خلاف اپنی مہم کو تیز تر کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔ وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ چاہتے ہیں کہ ان آڈیو لیکس پر ازخود نوٹس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’ان آڈیو لیکس کے ملک میں تشویش ناک اثرات مرتب ہوئے ہیں‘۔ کچھ وفاقی وزرا نے چیف جسٹس سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ دو شہریوں کی نجی گفتگو کی آڈیو ٹیپ حکمران اتحاد کی منظوری سے جاری کی گئی ہیں تاکہ جج پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ جو عدالت سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں، ان کے پاس بھی اس غیرقانونی فون ٹیپنگ پر کیے جانے والے سوالات سے متعلق کوئی جواب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس کی ہدایت پر ایجنسیاں ایسی غیرقانونی سرگرمی سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ ایک مجرمانہ اقدام ہے۔
اس پورے مسئلے نے انٹیلی جنس اداروں کے حوالے سے بھی متعدد سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ وہ یقینی طور پر خودمختار نہیں ہیں اور وہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ آڈیو لیکس کے حالیہ سلسلے میں جیسے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ تازہ ترین آڈیو لیکس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ملک میں جاری اقتدار کی سیاست میں ایجنسیوں کا بھی عمل دخل ہے۔
شاید یہ پہلا موقع نہ ہو کہ جب نامور سیاسی رہنماؤں اور اہم سرکاری شخصیات کی نجی گفتگو کو انٹیلی جنس اداروں نے ٹیپ کیا ہو۔ تاہم اس غیراخلاقی اور غیرقانونی رجحان میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ درحقیقت اب سیاسی رہنماؤں کو کمزور کرنے کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر آڈیو ٹیپس کا بےدریخ استعمال کیا جارہا ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کے دفتر میں ہونے والے اجلاس کی آڈیو ٹیپ تک لیک کردی گئیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ سال 2022ء کے اواخر میں پیش آیا جب وزیراعظم شہباز شریف کی ان کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گفتگو لیک ہوگئی تھی۔ انہوں نے اس معاملے پر تحقیقات کا حکم دیا۔ لیکن لگتا ہے کہ جب معاملہ حریف سیاسی رہنماؤں اور ججز سمیت دیگر مخالفین کا ہو تو حکومت کو فون ٹیپنگ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ماضی میں سپریم کورٹ کے کچھ اعلیٰ ججز نے شکایت کی تھی کہ ان پر انٹیلی جنس اداروں کے ذریعے نگرانی رکھی جارہی ہے۔
سابق ججز سمیت دیگر کی آڈیوز کا یوں بار بار لیک ہونا کافی حیران کُن ہے۔ ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور قانون کی کمزور حکمرانی نے انٹیلی جنس اداروں کو کھلا میدان فراہم کردیا ہے۔ عملاً سیاسی نظام انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ ایک سویلین حکومت کے لیے اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اپنے حریف سیاسی رہنماؤں اور عوامی عہدیداران کی نجی گفتگو کی ٹیپ کرنے کی اجازت دے۔
یہ صرف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ عمران خان نے بھی کیا جوکہ اب خود اس کا ہدف بن چکے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں تھے تب انہیں حریف سیاسی رہنماؤں کے خلاف اس طرح کے غیرقانونی طریقے استعمال کرنے پر کچھ زیادہ تحفظات نہیں تھے اور اب جب وہ خود اس کا شکار ہورہے ہیں تو سابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ’انہوں نے بطور وزیراعظم میری گفتگو ریکارڈ کی اور اسے لیک کیا۔ سپریم کورٹ کو اس پر اقدامات لینے چاہیئں‘۔ جب اقتدار ان کے ہاتھ میں تھا تب مخالفین کے خلاف اس طرز کے اقدامات کے جواز پیش کرنے کے بجائے وہ اس کے خلاف خود اقدامات لے سکتے تھے۔
سیاسی تقسیم بڑھنے کی وجہ سے انٹیلی جنس اداروں کو بھی کھلی چھوٹ ملی ہے۔ جہاں حکومت حالیہ آڈیو لیکس کو لےکر خوش ہے وہیں وہ یہ بات بھول رہی ہے کہ اس کے اپنے رہنماؤں کی بھی انٹیلی جنس ادارے نگرانی کررہے ہیں اور اس طرح کی لیکس کو اتحادی حکومت کو بھی کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو ہمارے پورے سیاسی نظام کو تباہ کرسکتا ہے اور ریاستی اداروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی چیف جسٹس کے خلاف مہم، عدلیہ میں دراڑ ڈال سکتی ہے جس سے اس نظام کو نقصان پہنچے گا۔ شاید چیف جسٹس کے کچھ متنازع اقدامات پر سوال اٹھانے میں کوئی حرج نہیں اور اس کے لیے عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اعلیٰ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے غلط ہتھکنڈوں کا سہارا لینا پورے نظام کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
کسی رشتہ دار کے سیاسی نظریات کی وجہ سے جج کی غیرجانب داری اور دیانت داری پر سوال نہیں اٹھنا چاہیے۔ سیاسی محاذ آرائی کی سیاست نے صرف سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کیا ہے۔ سیاسی مسائل کو حل کرنا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے غیرقانونی اقدامات کو روکنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی قیادت کا کام ہے کہ وہ اس بنیادی اور جمہوری انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکیں۔ غیرقانونی وائر ٹیپنگ کو روکنا ہوگا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اختیارات کی جانچ پڑتال کرنا ہوگی۔
ریاست کو سیاسی اقتدار اور قانون کے نفاذ میں ناکامی کا سامنا ہے جو ہمیں مکمل انارکی کی صورت حال میں دھکیل رہا ہے۔ ہمارا شمار اس وقت شاید ناکام ریاستوں میں نہ ہو لیکن ریاست کی کم ہوتی اتھارٹی کے باعث ہم تیزی سے اس جانب بڑھ رہے ہیں۔ آڈیو لیکس کا بڑھتا ہوا رجحان ایک کمزور ریاست کی جانب اشارہ کرتا ہے جو اپنے شہریوں کے بنیادی اور جمہوری حقوق کے تحفظ میں ناکام ہے۔ انٹیلی جنس اداروں اور سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ خطرناک ہے۔
یہ مضمون اپریل 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔